مولانا محمد نعمان چترالی
آہ میرے والد اور میرے استاذ ومربی جامعہ اشرفیہ لاہور کے استاذ الحدیث حضرت مولانا عبدالرحیم چترالی 13 ستمبر2024 ء بروز جمعۃ المبارک علالت کے بعد انتقال کر گئے، آپ جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل اور 50 سال تک جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہی بطور استاد درس و تدریس،اسلام کی اشاعت اور دین کی خدمت میں شبانہ روز مصروف عمل رہے،آپ کا تعلق چترال سے تھا۔ معزز قبیلے جس کا سلسلہ نسب محمود غزنوی سے جاملتا ہے،آپ اس کے علمی خاندان میں حضرت مولانا خواجہ محمد مستجاب خان کے چھوٹے بھائی جناب عیدا خان مرحوم کے ہاں 1954میں پیدا ہوئے آپ غالباً تین سال کے ہی تھے جب آپ کے والد محترم کا انتقال ہو گیا اور آپ شفقتِ پدری سے محروم ہو گئے... آپ نے دینی علوم کی ابتدا اپنے تایا جان خواجہ محمد مستجاب سے کی پھر اس کے بعد مزید علم حاصل کرنے کے لیے پشاور کی قدیمی دینی درسگاہ دارالعلوم سرحد میں داخلہ لے لیااور درجہ خامسہ تک کی تعلیم پشاور کے مختلف مدارس میں اپنے وقت کے جید علماء کرام سے حاصل کی،آپ کے مشہور اساتذہ میں حضرت مولانا فضل الرحمن فاضل مدرسہ امینیہ دھلی، حضرت مولانا محمد عمر فاضل دارالعلوم دیوبند،اور آپ کے محبوب استاذ حضرت مولانا عبدالرحیم سابق ایم این اے چترال شامل ہیں، دارالعلوم سرحد کے زمانے میں کوئی ایک کتاب آپ نے خطیب اعظم حضرت مولانا محمد امیر بجلی گھرمرحوم سے بھی پڑھی تھی، پھر آپ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آئے اورحضرت مفتی محمد حسن امرتسری بانی جامعہ اشرفیہ لاہور کے ذریعہ اس درس گاہ میں درجہ سادسہ میں داخل گئے جہاں آپ نے فنون کی باقی کتابیں وقت کے اکابر اور جید اساتذہ کرام سے پڑھیں آپ کے اساتذہ کرام میں حضرت مولانا محمد موسیٰ روحانی البازی ،حضرت مولانا صوفی محمد سرور ، حضرت مولانا محمد یعقوب خان سواتی ، حضرت مولانا نور محمود اور دیگراساتذہ کے نام شامل ہیں۔
آپ نے مادر علمی جامعہ اشرفیہ سے عالی مقام اساتذہ کرام سے 1974 تک دورہ حدیث شریف پڑھ کر سندِ فراغت حاصل کی۔پھر آپ نے ایک سال علم تجوید اپنے زمانے کے مشہور استاذ استاذ القراء قاری رحیم بخش اور قاری محمد صدیق سے حاصل کیااور پھر1976ء میں سابق مہتمم حضرت مولانا محمد عبید اللہ قاسمی کے حکم پر مادر علمی جامعہ اشرفیہ میں ہی بطوراستاذ دینی کتب کی تدریس کا آغازکیا اور زندگی بھر تقریباً 50 سال تک جامعہ اشرفیہ میں علمی و دینی اور روحانی خدمات سرانجام دیں۔وفات سے قبل شدید علالت اور بیماری کے باوجود مسلم شریف کے اسباق پڑھانے کے لیے درسگاہ تشریف لاتے رہے۔
آپ نے اپنا روحانی تعلق اپنے تایا جان چترال کی عظیم علمی و روحانی شخصیت حضرت مولانا خواجہ محمد مستجاب خان نقشبندی سے قائم کیا جو خود شیخ المشائخ حضرت مولانا خواجہ فضل علی قریشی مسکین پوری کے خلیفہ مجاز تھے۔آپ کی محنت، سرپرستی اور تعاون سے چترال‘‘ سے بے شمار طلبہ علماء و حفاظ بن کر دینی علوم سے رو شناس ہوئے ،جو کہ آپ کے لیے صدقہء جاریہ ہیں۔.. خیرخواہی کی صفت آپ کے اندرکوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،ہر ایک کی کامیابی پر ایسے خوش ہوتے جیسے اپنا کوئی عزیز ہوشفت و محبت کی صفت بھی آپ میں بہت زیادہ پائی جاتی تھی ،صحت کے زمانے میں ہمیشہ پہلی صف کا اہتمام فرماتے تھے،ہر نماز کے بعد ’’تسبیحات فاطمی ‘‘کبھی بھی ترک نہیں کرتے ،روزانہ ایک سپارہ بلا ناغہ قرآن مجید تلاوت کرنا آپ کا معمول تھا۔ فالج میں وفات سے ایک روز قبل فجر کے وقت مجھ سے کہا کہ بیٹا مجھے بستر پر بٹھا دو اور نمازِ فجر شروع کردی اس کے بعد اشراق اور دیگر نوافل ادا کیے تقریبا 12 بجے احقر کو فرمایا مجھے وضو کروادو تو میں نے وضو کروایا پھر نماز شروع کردی سلام پھیر کر وظائف اور مسلسل ذکر جاری رہا اورپھر13 ستمبربروز جمعۃ المبارک بوقت نماز فجر ذکر کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جامعہ اشرفیہ لاہور میں جمعۃالمبارک کی نماز کے بعد حضرت مولانا عبدالرحیم چترالی کی نماز جنازہ ادا کی گئی،نماز جنازہ مولانا سلمان حجازی نے پڑھائی نماز جنازہ میں اساتذہ وعلماء ،شاگرد وںعزیزواقرب سمیت بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی بعد میں قبرستان شیرشاہ اچھرہ لاہور میں والد گرامی حضرت مولانا عبدالرحیم چترالی کوان کے محبوب استاذ حضرت مولانا محمد عبید اللہ قاسمیؒ کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
استاذ الحدیث حضرت مولانا عبدالرحیم چترالیؒ
Sep 27, 2024