اْس باغ جناح سے اِس باغ جناح تک

دْور کی بات نہیں، کم و بیش پندرہ سال پہلے تک باغ جناح میں داخل ہوتے ہی دل ودماغ میں ایک فرحت بخش تازگی کا احساس ہوتا تھا۔ پھولوں کی خوشبو، چڑیوں کا چہچہانا، طوطا مینا کی سریلی آویزیں، فاختاؤں اور قمریوں کی مدھ بھری کْگو کْو، کوئل کی کو کو، وْڈپیکر کی ٹک ٹک، ممولوں کا پھدکنا، ہمنگ برڈز کا اْڑتے اْڑتے پھولوں کا رس چوسنا، رنگ برنگی تتلیوں کا پھولوں اور پودوں کے درمیان غول در غول اڑنا اور پھولوں کے بوسے لینا، سات آٹھ قسم کی پدیوں پھرتیلے کبوتروں کی غٹرغوں، گلہریوں کی کِڑکِڑ، خال خال کوئووں کی کائیں کائیں اور کبھی کبھار چیلوں کی اونچی اڑان جیسیاْس وقت کے باغ جناح کے نظارے موجودہ باغ جناح میں اگر معدوم نہیں تو انتہائی کم ضرور ہوگئے ہیں۔مگر چیلوں، کوؤں، کتوں اور بلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔  
موجودہ باغ جناح میں داخل ہوتے ہی ارد گرد سے تعفن اٹھتا محسوس ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ابلے بند گٹروں کی بدبو آپ کا استقبال کرے گے۔ خاص طور پر گیٹ نمبر چار کے ساتھ ٹیوب ویل کے سامنے اور گلستان فاطمہ  کے سامنے گلشن کینٹین کے پیچھے ابلے گٹروں کا بدبودار پانی مسلسل کھڑا رہتا ہے  اور فضا کومتعفن کرتا رہتا ہے۔ ڈائریکٹر ہاؤس کے سامنے ٹریک پر بھی ناگوار بدبو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ واک کرتے ہوئے افراد کا وہاں سے گزرنا محال ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ اور جگہوں پر بھی ہے مگر اس شدت کا نہیں۔ واش رومز کی بات کریں تو انتہائی گندے اور بد بو دار۔ سوائے ایک آدھ کے، واش رومز  کی صفائی کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اس میں صرف انتظامیہ ہی قصور وار نہیں بلکہ زیادہ عمل دخل استعمال کرنے والوں کا ہے۔ لوگ گند ڈال کر فلش(جہاں چالو ہے) نہیں کرتے۔ پانی کی ٹوٹیاں اتار کر لے جاتے ہیں۔ یورن پاٹس توڑ دیتے ہیں۔ آئینے اتار کر لے جاتے ہیں۔ یورن پاٹس اور ڈبلیوسی میں مسواکیں اور روڑے گھسیڑ دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔فضا کو مکدر کرنے میں کئی عوامل ہیں جن میں سے تین سر فہرست ہیں۔ اولاََ سگریٹ نوشی، دوم موٹر سائیکل اور سوم جابجابکھری ہوئی انسانی خوراک۔ 
اگرچہ کئی جگہوں پر سگریٹ نوشی پر جرمانے وغیرہ کے نوٹس آویزاں ہیں مگر عمل ندارد۔ جاگنگ ٹریک پر چلتے ہوئے ، جمی محفلوں میں اور انفرادی طور پر بیٹھے ہوئے سگریٹ نوش دھڑلے سے سگریٹوں کے دھوئیں کے پیچ در پیچ مرغولے چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ نان سموکرز کے لئے یہ دھواں باعث اذیت ہی نہیں باعث بیماری بھی ہے مگر یہ لوگ سمجھنے سے عاری ہیں۔ انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ امتناع سگریٹ  نوشی کے پوسٹر لگانے کے ساتھ ساتھ  سیکیورٹی گارڈز کو ہدایت کرے کہ باغ میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کو منع کریں۔  ساتھ ہی ہفتے میں کسی ایک دن (بدل بدل کر)کسی ایک مجسٹریٹ کے اچانک چھاپے کابندو بست کرے اور سگریٹ نوشوں کو موقع پر جرمانے ہوں تو یہ لعنت چند دنوں میں ختم ہو سکتی ہے۔
دوم یہ کہ باغ میں آلودگی پھیلانے میں باغ کی راہداریوں(کچی اور پکی دونوں) پر موٹر سائیکلوں کی آمدورفت  کا بھی بڑاعمل دخل ہے۔ چند سال پہلے تک ان موٹر سائیکلوں کا داخلہ قطعی ممنوع تھا مگر اب سوائے ایک دو کے ہر سیکیورٹی گارڈ اور مالی بلا روک ٹوک تیزی سے موٹر سائیکل دوڑاتے نظر آتا ہے جس سے گردوغبار اْڑتا ہے اور ساتھ ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا بھی کافی اخراج ہوتا ہے، جس سے فضا اس قدر مکدر ہو جاتی ہے کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ بچے بچے کو پتا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کتنی مضر صحت ہے۔ اس کے علاوہ واک کرنے والوں کو بچ بچا کے چلنا پڑتا ہے کہ کہیں ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے۔ انتظامیہ کو  باغ میں ان موٹر سائیکلوں کے داخلے پر فی الفور پابندی لگانی چاہیئے۔ ان سیکیورٹی گارڈوں اور مالیوں، جو کہ باغ کے اندر موٹرسائیکل چلاتے ہیں، کی ڈیوٹی کے علاقے پہلے سے الاٹ شدہ ہوتے ہیں، انہیں وہاں تک جانے اور چھٹی کے وقت واپس آنے میں پچھلے سالوں کی طرح کوئی دقت نہیں ہونی چاہیئے۔ 
سوم یہ کہ کئی لوگ عاملوں یا ملاؤں کے بہکاوے میں آکر یا آباؤ اجداد کے راستے پہ چلتے ہوئے جا بجا آٹا، سوجی، دلیہ، دالیں، روٹیوں، پراٹھوں،ڈبل روٹیوں،پاپڑوں، کیکوں اور نانوں وغیرہ کے ٹکڑے، گندم، باجرہ، مکئی، کنگنی، چپس،نمکو، کچے پکے چاول، شکر، چینی، بلیوں کی فیڈ اورگوشت وغیرہ باقاعدگی سیپھینکتے ہیں۔ اس میں سے کچھ خوراک تو جانور کھا لیتے ہیں مگر بقایا ڈھیریوں کی شکل میں باسی اور گل سڑ کر کر سخت تعفن کا باعث بنتی ہے۔ تعفن کے علاوہ ٹریک کے کنارے لگے خوبصورت درخت یا تو جزوی یا کلی طور پر سوکھے پن کا شکار بنتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ چند اصحاب درختوں کے ارد گرد باریک خوراک یعنی دالیں گندم باجرہ کنگنی دلیہ شکر چینی وغیرہ روزانہ کی بنیاد پر ‘‘مذہبی فریضہ’’ سمجھ کرپھینکتے ہیں۔ جس کے لازمی نتیجہ کے طور پر وہاں چیونٹے اور چیونٹیاں اپنی کالونیاں بنا لیتی ہیں۔ یوں درختوں کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔
 چیونٹے چیونٹیوں کو قدرت نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ زمین پر بکھری یا پیدا شدہ ویسٹ کو کنزیوم کریں۔ یہ وہ ویسٹ بھی کنزیوم کرتے ہیں جو انسانی آنکھ کو نظر نہیں آتی۔ مفت کی خوراک ملنے سے ان میں ایسی ویسٹ کی تلاش اور کنزیوم کرنے کی طلب ختم ہو جاتی ہے اور یہ ویسٹ انتہائی خطرناک بیکٹیریا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس سے کائناتی توازن بھی بگڑتا ہے۔ اِدھر اْدھر پھینکی ہوئی خوراک پر زور آور جانور یعنی چیل، کوے، کتے اور بلیاں جھپٹتے ہیں۔ چھوٹے پرندوں کے ہاتھ وہی کچھ آتا ہے جو ان سے بچ جائے۔ایسی غیر فطری خوراک کھا کھاکر چھوٹے بڑے پرندے موٹاپے کا شکار ہو کرقبل از وقت مر جاتے ہیں۔ ایسے مرے ہوئے جانور آئے دن کہیں نہ کہیں بد بو چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں زورآور یا بدمعاش پرندے مفت کی غیر فطری خوراک کھانے سے اور بھی خونخوار ہو کر چھوٹے پرندوں مثلاََ چڑیوں، پدیوں، ہمنگ برڈز، طوطوں اور فاختاؤں وغیرہ  پر حملہ آور ہونے کے علاوہ اکثر ان کے انڈے پی جاتے ہیں اور اگر بچے نکل بھی آئیں تو وہ یہ بچے بھی کھا جاتے ہیں۔  چیلوں میں اتنی خونخواری آگئی ہے کہ کئی دفعہ انہیں اڑتی  چڑیوں/پدیوں کو فضا ہی میں سے دبوچتے دیکھا گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر باغ میں ان چھوٹے خوبصورت پرندوں کی آبادی نمایاں طور پر کم ہوگئی ہے۔ باغ کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ سیکیورٹی گارڈز کو اپنی اپنی ِبیٹ میں ان خوراک پھینک حضرات کو ایسا کرنے سے تسلسل کے ساتھ منع کرتے رہا کریں۔ کتوں کا یہ عالم ہے کہ  باغ میں وہ دسیوں کی تعداد میں غول در غول ادھر اْدھر مٹر گشت کرتے رہتے ہیں۔ کئی دفعہ وہاں موجود لوگوں کو ہراساں بھی کرتے ہیں۔ ایک وہ وقت تھاجب باغ کے ارد گرد جنگلہ وغیرہ بھی نہیں ہوتا تھا مگر پورے باغ میں ایک بھی کتا نظر نہیں آتا تھا لیکن اب جنگلہ ہونے باوجود کتے اندر دندناتے پھرتے ہیں۔ یہی حال بلیوں کا ہے۔ وہ بھی فیڈ اور گوشت کھا کھا کر خونخوار ہو گئی ہیں۔ کسی بھی شاپر پکڑے شخص کے پیچھے لگ کر اسے ہراساں کرتی ہیں اور اپنے اصل کام یعنی چوہے وغیرہ پکڑنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں۔ 
کئی اصحاب ٹریک پر چلتے ہوئے مسواک کر رہے ہوتے ہیں اور جا بجا تھوکتے جاتے ہیں۔ ان کا یہ عمل پاس سے گزرنے والوں کے لئے کراہت آمیز  ہی نہیں بلکہ لامحالہ بیکٹیریل انفیکشن کا باعث بھی بنتا ہے۔ کئی اصحاب تو تہذیب کی ہر حد پار کرتے ہوئے کسی بینچ پر بیٹھ کر مسواک کرنے کا شوق فرماتے ہیں اور دوسروں کے حقوق سے بے بہرہ ہوکر بینچ کے آگے اور دائیں بائیں تھوکتے رہتے ہیں۔ بعض حضرات چلتے کسی بینچ پر پاؤں رکھ کر گرد اور کیچڑ وغیرہ سے لتھڑے جوتوں تسمے باندھ رہے ہوتے ہیں یا جوتوں سمیت بینچ پر چڑھ کر ورزش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کواس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ بعد میں دوسروں نے  وہاں بیٹھنا بھی  ہے۔ ایک اور رجحان جو کہ بعض لوگوں کو بظاہر  بھلا لگتا ہے لیکن نامناسب انداز میں کرنے سے بے ادبی کا پہلو زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ وہ یہ کہ موبائل فون پر تلاوت لگا کر اسے شلوار کی اگلی جیب میں رکھ کر سننا - سمجھ داروں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔ پھر ایک اور تکلیف دہ  یہ رحجان زور پکڑتا جا رہاہے کہ باغ کی سڑکوں کے بیچوں بیچ کبھی بھی کہیں بھی لونڈے لپاڑے کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں جنہیں کسی آنے جانے والے کی پرواہ نہیں ہوتی۔ بسا اوقات گیند چلتے لوگوں لگ جاتی ہے مگر یہ بے حس لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ یہ حال بیڈ منٹن کھیلنے والوں کا بھی ہے۔ وہ بھی جہاں جی چاہے اپنا میدان سجا لیتے ہیں۔ انتظامیہ کی مناسب توجہ سے مندرجہ بالا قباحتیں کافی حد تک دور ہو سکتی ہیں اور باغ پھر سے پررونق و معطر ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن