طارق قمر: ایک معتبر شعری حوالہ

مغرب سے ہونے والی ہر قسم کی ثقافتی یلغار پاکستان سے پہلے بھارت پر ہوتی ہے۔ پچھلے پچاس سال میں اردو تہذیب پر جیسے جیسے حملے کیے گئے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں میں ساختیات وغیرہ جیسی بدیسی تنقیدی تھیوریوں نے جس طرح ادب کے طالب علموں کے اذہان کو کنفیوڑن میں مبتلا کیا اور اردو لٹریری فیسٹیولز اور سطحی مشاعروں  کی وبا نے شعر و  ادب کے قارئین کو جس حیرت اور کرب میں مبتلا کیا یہ بہت دردناک ہے کہ دنیا کے آٹھ ارب انسان معاشی اور عسکری جنگوں کی لپیٹ میں اور عالمی جنگ کے دہانے پہ حیران و پریشان کھڑے سوچ رہے ہیں، آخر ہمارا بنے گا کیا لیکن شاعر اور ادیب میلے مناتے تھکتے نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تہذیب فروش واقعی حقیقی شاعر اور ادیب ہیں جو جنسی مضامین کی شاعری پر مبنی منافع بخش مشاعروں اور ایکٹرسوں اور کامیڈینز کی قیادت میں چلنے والے اور درباری ادیبوں،  شاعروں کے مدد سے پلنے والے لٹریری فیسٹیولز اور اردو کانفرنسوں کے دھن چکر سے نہ خود نکل رہے ہیں نہ اردو ادب کے قارئین و سامعین کو نکلنے دے رہے ہیں۔ 
ایسے میں اگر طارق قمر جیسا صاحب بصیرت،  طاقتور اور ممتاز شاعر اپنی پوری تخلیقی آبرو کے ساتھ آسمان ِ ادب پر چمکتا دمکتا دکھائی دیتا ہے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ وہ قلندروں والی شان بے نیازی کے ساتھ اس گمراہ کن موجود کو للکارتا نظر آتا ہے۔ 
اگر درویش ہو تو لقم تر کی ہوس کیوں ہے 
قلندر ہو تو شاہوں سے کنارا کیوں نہیں کرتے
سائنس اور فلسفے کے ارتقاء اور معاشی استحصال کے عروج پر آج شاعر کی تعریف بدل گئی ہے۔ آج ایک ناکام عاشق، سماج بیزار اور غیر ذمہ دار و بے شعور شخص جتنی بھی اونچی اونچی چھلانگیں لگائے، چائے میں انگلیاں ڈبونے، بستر الٹا سیدھا کرے اور مشاعروں میں شور نما داد وصول پانے والی غزلیں کہہ لے یا قلابازیاں لگا لگا کر مشاعرہ گاہ کا فرش اکھیڑ ڈالے حقیقی شاعر نہیں کہلا سکتا۔ اب اسے عصری شعور، سائنسی پیش رفت اور طبقاتی عدم توازن کے ادراک کا حامل ہونا ہی پڑے گا ورنہ وہ آج سے پانچ سو سال پرانی کسی تعریف کے مطابق تو شاید شاعر کہلائے دور حاضر کے مطابق سوائے کسی مصنوعی اور کمزور پرفارمر سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں کہلائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آج کسی کے شاعر ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ   صاحب احساس ہو۔ اسی ضمن میں طارق قمر کے چند اشعار دیکھیے:
دشتِ احساس تری پیاس سے میں ہار گیا
ورنہ سیلاب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں 
غور سے دیکھو ہمیں دیکھ کے عبرت ہوگی 
ایسے ہوتے ہیں بلندی سے اترتے ہوئے لوگ 
میں کبھی تجھ سے بے خبر نہ ہوا
کوئی آنسو اِدھر اْدھر نہ ہوا 
اب عصری شعور کو شعری پیکر میں ڈھالنے کی قدرت کا زیر نظر شعر سے اندازہ کیجیے کہ کس طرح شاعر نے محض ایک شعر کے دس گیارہ الفاظ پر مشتمل دو چھوٹے اور سادہ ترین مصرعوں میں پوری دنیا پر شیطانی غلبے اور جبر کے تسلط کو پوری درد مندی سے بیان کیا ہے۔ 
اے ہوا ہے ترا ارادہ کیا 
روشنی ہو گئی زیادہ کیا 
طارق قمر نہ صرف جہاں دیدہ شاعر ہے بلکہ ایک دیدہ ور شاعر کے طور پر بھرپور جدید حسیت کے ساتھ اردو زبان و ادب کو سرفراز کرتا نظر آتا ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ہمارا شاعر دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر شر کی قوتوں سے نبرد آزما ہے:
ذہن پر بوجھ رہا دل بھی پریشان ہوا 
ان بڑے لوگوں سے مل کر بڑا نقصان ہوا 
مات اب کے بھی چراغوں کو ہوئی ہے لیکن 
چاک اس بار ہوا کا بھی گریبان ہْوا
طارق قمر جدید طرز اظہار میں بھی عصر حاضر کے تمام شعراء  سے مختلف، منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے:
شدت بڑھی جو دھوپ کی تو اک فقیر نے
سورج کو اک درخت کے سائے میں رکھ دیا
اک آئینے کے چٹخنے سے یہ ہوا طارق
پھر اس کے بعد کوئی گھر میں مسکرایا نہیں
ہماری آنکھ بظاہر جو ایک صحرا ہے 
تمہارا ذکر کوئی چھیڑ دے تو دریا ہے 
اس دن ہم پر ہونٹوں کے اسرار کھْلے
جس دن ہم نے اس کا ماتھا چوما تھا
رعونتیں چلی آئیں گھروں سے قبروں تک
یہاں بھی نام کے پتھر لگائے جاتے ہیں
ورنہ یہ گھر بھی چلا آئے گا پیچھے پیچھے
مڑ کے مت دیکھنا اب گھر سے نکلتے ہوئے تم
طارق قمر غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے میدان میں بھی اتنا ہی حساس اور نوکیلا ہے جتنا کہ غزل میں بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ نظم میں وہ اپنی غزل سے زیادہ بلند آہنگ بھی ہے اور زیادہ تلخ و ترش بھی۔ یہ۔ ملاحظہ فرمائیے:
نظم 
چیختی اور خموش آوازیں
ڈوبتے اور ابھرتے یہ لہجے  
میرا اپنا شناخت نامہ ہیں
حرف و صوت و صدا کے یہ رشتے
میری تہذیب کی علامت ہیں
میرے کردار کا حوالہ ہیں 
کل جو آواز روشنی کے لئے 
آیتوں کے دیے جلاتی تھی
رات کو لوریاں سناتی تھی
صحن میں دھوپ بن کے چھاتی تھی
سخت لہجوں سے ڈر رہی ہے اب
گھر میں چپ چاپ مررہی ہے اب
کتنے مصروف ہو گئے ہیں سب 
اس کا احوال پوچھنے کے لئے
پہروں کمرے میں کوئی آتا نہیں 
اب یہ دیواریں خوش نہیں ہوتیں
اب یہ دالان مسکراتا نہیں
اس تغیّر پہ سخت حیراں ہے
غم بداماں ہے اور پریشاں ہے
پھر بھی شکوہ اسے زمیں سے نہیں
آسماں سے سوال کرتی ہے
یہ بتا  اے ! خدائے صوت و صدا 
لفظ پہچان کھو چکے ہیں کیا؟
رشتے بے جان ہو چکے ہیں کیا؟
میرے جیسے ادب کے طالب علم کے لیے یہ امر نہایت ہمت افزا اور خوشگوار ہے کہ ہندوستان جیسے ملک سے ایک ایسے بڑے اور قد آور شاعر کی آمد کا اعلان ہو رہا ہے جہاں ایک طرف فلمی کمرشلزم بڑے بڑے نابغوں کو کھا گیا تو دوسری طرف سیاسی اور کمرشل سطحی مشاعروں نے خالص شعری فضا کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ طارق قمر کو اعلیٰ پائے کی شاعری تخلیق کرنے پر  پاکستان سے بہت بہت مبارک باد۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن