جمعۃ المبارک‘22 ربیع الاول 1446ھ ‘ 27 ستمبر 2024ء

منی( بجٹ ) بدنام ہونے نہیں آرہی، ایف بی آر نے تردید کر دی۔
خدا کرے یہ خبر درست ہو اور منی بجٹ کے آنے کی اطلاع راستے میں ہی دم توڑ جائے۔ ابھی لوگوں میں جو رمق بھر سانس باقی دکھائی دیتا ہے یہ کہیں منی بجٹ نہ کھینچ لے اور غربا کا لاغرجسد خاکی دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے۔جب یہ لوگ ہی نہ رہیں گے تو سالانہ قومی بجٹ ہو یا منی بجٹ‘ وہ کن پر نافذ ہوگا۔ لوگ حیران ہیں کہ وہ تو مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں‘ مگر اشرافیہ بڑی چالاکی سے ثمرات سیمٹی پھر رہی ہے۔ کیا صرف عام آدمی پر ہی قربانی فرض ہے۔ اور کسی پر نہیں۔ اس لئے خدا نہ کرے کہ منی بجٹ کے نام پر لوگوں کو ایک بار پھر ذبح کرنے کا کوئی بہانہ تلاش کیا جائے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا کرنا بھی ہو تو متوسط اور غریب نہیں‘ اشرافیہ کیلئے اس منی بجٹ کو باعث بدنامی بنایا جائے۔ سارا بوجھ ان پر ڈالا جائے تاکہ انہیں بھی قرض کی مئے پینے کا مزہ آئے۔ صرف غریبوں کی ہڈیوں کو بھنبھوڑنے سے اب کچھ نہیں ملے گا۔ انکے جسم میں اب گوشت اور خون باقی بچا ہی نہیں ہے جسے نحوڑ کر منی بجٹ اپنے اہداف پورا کرسکے۔ ہاں البتہ وافر مال پانی پر پلنے والے صحت مند بے شمار ایسے ہیں جن کے جسم میں گوشت بھی بہت ہے اور خون بھی۔ انہیں چاہیے انگور کی طرح نچوڑیں یا بیلنے میں ڈال کر پیلیں‘ بہت رس حاصل ہو سکتا ہے۔ 
٭…٭…٭
کہیں ہمارے موبائل فون بھی بم میں نہ بدل جائیں‘ سینیٹرز کے خدشات۔
یہ سوال تو واقعی بہت اہم ہے کہ ہم جس موبائل کو ہر وقت محبوب کی یاد بنا کر اپنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ لمحہ بھر بھی اسکی دوری ہم پہ گراں گزرتی ہے۔ اب یہی عزیز ازجاں کہیں ہماری جان عزیز کا دشمن نہ بن جائے۔ اب یہی دیکھ لیں لبنان میں اسرائیل نے جس طرح پیجر اور واکی ٹاکی کے علاوہ موبائل کی مدد سے جو جدید تکنیکی حملہ کیا ہے‘ اسکی وجہ سے جو تباہی و ہلاکتیں ہوئی ہیں‘ اسکے بعد تو واقعی ہمیں زیادہ ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹ میں مختلف سینیٹرز نے بالکل درست خدشات کا اظہار کیا ہے کہ کہیں:
میرا محبوب میرے پیار کا قاتل نکلا، 
آرزوئوں کا جنازہ سرمحفل نکلا
والا حال ہمارانہ ہو جائے اور ہمارے سینوں سے لگا یہ موبائل اچانک کسی خونخوار بم کی شکل اختیار کرلے اور ہم بے موت مارے جائیں۔ غضب تو یہ ہوگا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ قاتل کون ہے۔ کس نے ہماری جاں ناتواں پر یہ ظلم ڈھایا ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے آلات سختی سے چیک کرنا ہونگے جو ہروقت ہمارے استعمال میں رہتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی لیبارٹری بھی نہیں ہے۔ یہ کوئی خیالی افسانہ نہیں‘ مشرق وسطیٰ میں پھیلی کشیدگی کی وجہ سے اسکے ایک فریق ایران نے تو ملک بھر میں ڈیوائسز یعنی پیجر اور واکی ٹاکی کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے خاص طور پر اہم افراد کو خبردار کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نہایت سفاکی سے اپنے مخالفین کو جس طرح مار رہا ہے‘ وہ بدترین جنگی جرائم ہیں۔ فی الحال ہمیں اپنی فکر کرتے ہوئے اس طرف فوری توجہ دینا ہوگی کہ کہیں ہمارے ہاں بھی مخالفین یہی موبائل بم استعمال نہ کرنے لگیں۔ یوں کوئی عاشق رہے گا نہ عاشق نواز۔ 
٭…٭…٭
پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں رہنا چاہتی ہے‘ رئوف حسن۔ 
اب یہ بات سجھ سے بالاتر ہے کہ پی ٹی آئی کے قید ی بانی کی بات پر عمل ہوگا کہ باہر موجود پارٹی قیادت کی بات پر۔دو ہفتے قبل باربار کی خواہش کے باوجود جب اسٹیبلشمنٹ کی طرف مثبت ردعمل نہیں ملا تو بانی نے اعلان کیا کہ اب کسی سے کوئی بات چیت یا مذاکرات نہیں ہونگے ،مقابلہ ہو گا۔ مگر پارٹی کے کئی رہنما دبے دبے لفظوں میں کہہ رہے تھے کے ہم اسٹیبلشمنٹ سے مکمل رابطے توڑنا نہیں چاہ رہے۔ اس کا ذکر وہ اکثر و بیشتر کرتے رہے۔ اب گزشتہ روز پارٹی کے روف حسن نے ایک بار پھر واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتے ہیں۔ شاید انہیں اس حقیقت کا ادراک تھا کہ پارٹی کس دور سے گزر رہی ہے۔ صرف لچھے دار بیانات سے گرما گرم تقاریر سے نہ بانی کو فائدہ ہو رہا ہے نہ پارٹی کو۔ اب دیکھنا ہے کہ انکے اس حقیقت افروز بیان پر پارٹی رہنما کیا کہتے ہیں۔ سب کو چھوڑیں اب خود کپتان کیا فرماتے ہیں۔ ویسے اب انکی طرف سے جس طرح ہر بیان پر چند روز بعد یوٹرن لیا جاتا ہے۔ اس سے کچھ بعید نہیں وہ رؤف حسن کی تائید کردیں۔ مگر پارٹی کے جنگجو عناصر اب بھی برسر پیکار رہنا چاہتے ہیں۔ وہ خود تو باہر عیش و آرام سے رہ رہے ہیں جس پر علیمہ خان کو بھی غصہ ہے اور وہ کہتی ہیں کہ کچھ رہنماء نہیں چاہتے کہ میرا بھائی جیل سے باہر آئے۔ ظاہری بات ہے ایسا ہوا تو پھر وہ بے چارے کھڈے لائن لگ جائیں گے۔ نہ کوئی انہیں تقریر کیلئے بلائے گا۔ نہ میڈیا والے انکے صدقے واری جائیں گے۔ اب دیکھنا ہیجس سے بات کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ وہ اپنی آمادگی ظاہر کرتا ہے یا نہیں۔ کپتان نے اپنی زبان کی وجہ سے اپنے بے شمار مخالفین پیدا کرلئے ہیں۔ کوئی بھی ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے کہتے ہیں ہمیشہ میٹھا میٹھا بولنا چاہیے۔ 
٭…٭…٭
پاکستان بھکاری مافیہ پر قابو پائے ورنہ ویزوں کے اجراء میں پابندیاں لگ سکتی ہیں‘ سعودی حکام۔ 
بار بار کہنے کے باوجود جب حکومت پاکستان کے کان پر جوں نہیں رینگی تو اب سعودی عرب نے واضح طور پر پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہاں سے بھکاریوں کو سعودی عرب آنے سے نہ روکا گیا تو اس کا عمرہ اور حج کے زائرین کے ویزوں کے اجراء پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں سب سے زیادہ ہزاروں پاکستانی بھکاری دیہاڑیاں لگاتے نظر آتے ہیں۔ ان کو ایک منظم مافیا کمیشن لے کر ویزے جاری کراتا ہے۔ یہ کام عمرہ کے نام پر سارا سال اور حج کے سیزن میں عروج پر ہوتا ہے۔ کیا حکومت پاکستان ویزے جاری کرتے ہوئے چھان بین نہیں کرتی کہ یہ کون لوگ ہیں جنہیں سپانسر اور مالی حیثیت نہ ہونے کے باوجود کس طرح اتنی بڑی تعداد میں عمرہ کیلئے بھیجا جا رہا ہے۔ انکے پاس اتنی رقم تو ہوتی نہیں کہ وہاں کی رہائش اور واپسی کے ٹکٹ کا اندراج کرائیں۔ بھکاریوں کی اس بھرمار کی وجہ سے اب صرف سعودی عرب ہی نہیں‘ متحدہ عرب امارات و دیگر خلیجی ریاستوں نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے کہ اگر بھکاریوں کی آمد بند نہ ہوئی تو وہ ویزوں کے اجراء پر پابندی لگا دینگے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ بھکاری اس کمیشن مافیا کو تین لاکھ روپے فی بندہ دیتے ہیں جو انہیں ویزے لگوا کر باہر بھیجتا۔ وہاں انکی رہائش کا بندوبست کرتا ہے اور واپسی پر کمائی سے حصہ بھی لیتا ہے پھر بھی فی بھکاری فی پھیرا دو سے تین لاکھ کما لیتا ہے۔ اب ایسے پرکشش آمدنی والے کاروبار کو کون چھوڑ سکتا ہے۔ اب تو زیارات کے نام پر عراق‘ شام اور ایران میں بھی بھکاری مافیا ملک کا نام خوب روشن کر رہا ہے۔ وہاں کی حکومتیں بھی شکایات کر رہی ہیں کہ خدارا! اپنے بھکاریوں سے ہماری جان چھڑائو۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن