ارکان قومی اسمبلی کی طرز پر سینیٹرز نے بھی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا اختیار حکومت سے لے کر سینیٹ کو دینے کی تجویز پیش کردی۔ ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات میں اضافے کے لیے وزارت خزانہ سے مشاورت کی جاتی تھی مگر اب ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات میں اضافے کیلئے وزارت خزانہ سے مشاورت نہیں ہوگی قومی اسمبلی اس ضمن میں ترمیم پاس کرچکی ہے۔
سینٹرز قومی اسمبلی کے ممبران کی طرح براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر نہیں آتے۔یہ منتخب نمائندوں کے منتخب کردہ پارلیمنٹیرین ہیں۔صوبوں کو پارلیمنٹ میں یکساں نمائندگی دینے کے لیے ایوان بالا کی تشکیل یا تخلیق کی گئی ہے۔سینٹرز کے لیے پارٹی سربراہ کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے کہ آزاد حیثیت میں بھی سینٹر منتخب ہو جاتے ہیں۔ کچھ نابغہ روزگاروں کو وزیر مشیر مقرر کرنے کے بعد سینیٹر منتخب کیا جاتا ہے۔ کچھ کے خلاف رشوت کے بل بوتے پر سینیٹر بننے کے الزامات اور انکوائریاں بھی ریکارڈ پر ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ان کی مراعات میں اضافے پر بھی شدید عوامی رد عمل سامنے آتا ہے۔اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینا ایسے ہی ہے جیسے پیٹرول پمپ مالکان پٹرول کی قیمت کا تعین خود کریں۔ کاشت کاراپنی اجناس اور صنعت کار اپنی مصنوعات کی قیمتیں خود طے کریں جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔اس سے انارکی ہی پھیلے گی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا۔انہوں نے ترمیم پیش کی اور کہا کہ ارکان پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں میں اضافہ اپنی مرضی سے کریں گے۔بدترین مہنگائی کے ہاتھوں عوام زندہ درگور ہونے کی حالت میں ہیں‘ تنخواہ دار اور مزدور طبقہ کے فاقوں کی نوبت آچکی ہے‘ جبکہ حکمران اشرافیہ اپنی مراعات اور تنخواہ میں اضافے کیلئے مقابلے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑی مارا ماری اور بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے جس پر چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں رکھا جا رہا۔ اس سے یہی تاثر پختہ ہوا ہے کہ انہیں عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں‘ انہیں اپنی تنخواہ اور مراعات ہی عزیز ہیں۔