ریاست کا "جگّا" بننے کا فیصلہ

نہایت دیانتداری سے بدھ کی رات سونے سے قبل ارادہ یہ باندھا تھا کہ جمعرات کی صبح اٹھ کر جو کالم لکھنا ہے اس کے ذریعے قوم کو ’’مبارکباد‘‘ دوں گا کہ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ -آئی ایم ایف- ایک بار پھر پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے رضا مند ہوگیا ہے۔ مختلف اقساط میں ہمیں آئندہ تین برسوں کے دوران مجموعی طورپر 7ارب ڈالر کی خطیر رقم ملے گی۔ اس رقم کو مگر ’’امدادی‘‘ پکارا جائے گا کیونکہ اس کی شرح سود 5فی صد کے لگ بھگ ہوگی۔ وسیع تر تناظر میں سود کی یہ رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ احتیاطاََ یہ بھی لکھ دینا چاہیے کہ غالباََ لفظ ’’سود‘‘ کا استعمال ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں مناسب نہیں۔ مجھے ’’سروس چارج‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا چاہیے تھی۔ اس کا اردو ترجمہ’’معاوضہ خدمت‘‘ ہوسکتاہے۔ آئی ایم ایف سے ’’امدادی پیکیج‘‘ منظور ہوجانے کے بعد ہمیں دنیا کے دیگر ممالک، عالمی بینک اور مالیاتی ادارے بھی نسبتاََ آسان شرائط پر قرض فراہم کرنے کو رضا مند ہوجایا کریں گے۔
ذہنی طورپر البتہ اب تیار ہوجائیں کہ آئی ایم ایف سے طے ہوئی رقم کی مختلف اقساط میں ادائیگی یقینی بنانے کے لئے مجھے اور آپ کو اپنی محدود سے محدود ہوتی آمدنی میں سے حکومت کو براہ راست اور بالواسطہ حوالوں سے بے شمار ٹیکس ادا کرنا ہوں گے۔ حکمرانوں نے اس کے لئے آپ کو بروقت آگاہ کرنا شروع کردیا ہے۔ بدھ کے روز میڈیا پر یہ خبر نمایاں انداز میں اجاگر ہوتی رہی کہ ’’نان فائلر‘‘ نامی شے اب وطن عزیز میں ناپید ہوجائے گی۔ جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اپنی آمدنی کا کھاتہ حکومت کے روبرو نہیں رکھتے وہ غیر ملکی سفر نہیں کرسکیں گے۔ وہ نئی کاریں اور جائیدادیں خریدنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ ہماری ریاست کو کسی زمانے میں ہمارے بد خواہ دہشت گردی کی انتہا کے دنوں میں ’’سافٹ‘‘ یعنی نرم ریاست کہا کرتے تھے۔ ریاست نے مگر اب ’’جگا‘‘ بننے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ ٹیکس کے حصول میں کوئی رعایت دکھانے کو آمادہ نہیں۔ ٹیکس ادا کرنے کے عوض میرے اور آپ کے شہری حقوق کا تحفظ ہوگا یا نہیں اس کے بارے میں یقین دلانے سے اگرچہ گریز برتا جارہا ہے۔ ویسے ہمیں بطور رعایا ایسے سوالات اٹھانے کی عادت بھی نہیں رہی۔ جانے کتنی صدیوں سے کولہو میں جتے بیل کی مانند دائروں میں سفر (انگریزی والا بھی) کاٹ رہے ہیں۔
ریاست کو ’’خودمختار‘‘ اور خوش حال بنانے کے لئے اس کے شہریوں کو مناسب ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرنا لازمی ہے۔ میں تقریباََ 24برس سے اپنی محدود آمدنی کے باوجود ہر برس ٹیکس ریٹرن جمع کروارہاہوں۔ اپنی آمدنی چھپانا میرے لئے ممکن ہی نہیں۔ صحافت میری کمائی کا واحد ذریعہ ہے۔ جن صحافتی اداروں کے لئے کام کرتا ہوں وہ بذریعہ چیک معاوضہ میرے بینک اکائونٹ میں جمع کرواتے ہیں۔ میرے بینک میں چیک بھجوانے سے قبل اس پر واجب الادا ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ ’’لفافے‘‘ ملنے کا الزام کئی برسوں سے لگ رہا ہے۔ لفافوں کی بدولت ملی مبینہ رقم مگر میری روزمرہّ زندگی میں کہیں استعمال ہوتی نظر نہیں آرہی۔ سادہ زندگی گزارتا ہوں۔کنجوس ہرگز نہیں مگر سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا مشکل سے مشکل ترہورہا ہے۔
عمر کے اس حصے میں داخل ہوچکا ہوں جہاں مجھے ریٹائر ہوجانا چاہیے۔ کام کئے بغیر مگر زندہ نہیں رہ پائوں گا۔ دریں اثناء اگر بیمار ہوجائوں تو ڈاکٹر کی فیس پلے سے ادا کرنا ہوگی۔ ہمارے ہاں ریٹائر ہوئے لوگوں کے لئے کوئی ایک سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ جن ممالک میں ٹیکس باقاعدگی سے جمع ہوتے ہیں وہ ریٹائر ہوئے افراد کو بے شمار سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں 60برس سے زائد عمر کے شہری بسوں اور ٹرینوں میں تقریباََ مفت یا آدھی ٹکٹ پر سفر کرتے ہیں۔ ان کا علاج معالجہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ہاںیہ تصور مفقود ہے۔ مذکورہ بالا سوالات مگر سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے ہمارے ریگولر میڈیا میں اٹھائے نہیں جاتے۔ رواں صدی کا آغاز ہوا تو سوشل میڈیا آگیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس کی بدولت ’’لفافہ صحافت‘‘ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں موبائل ہے اب دنیا کو ’’سچ‘‘ دکھااور بتاسکتا ہے۔ ان دنوں مگر ’’سچ‘‘ شاذہی چند یوٹیوب چینلوں کے ذریعے سنجیدہ معاملات پر دیکھنے اور سننے کو مل پاتا ہے۔ انٹرنیٹ کے تقریباََ تمام پلیٹ فارم اجتماعی طورپر ’’نفرت‘‘ پھیلانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر چھائے ’’ذہن سازوں‘‘ کی بدولت اب ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت یہ طے کر بیٹھی ہے کہ ملک میں جمہوریت، خوشحالی، تحفظ حقوق انسانی اور استحکام فقط اسی صورت میسر ہوسکتا ہے جب عدلیہ حقیقی معنوں میں آزاد ہوجائے گی۔ اس کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے لازمی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد ریٹائر ہوجائیں۔ ان کی جگہ روایت کے مطابق سینئر ترین جج صاحب چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں۔ کسی بھی عزت مآب جج سے مسیحائی کی توقع مجھ بدنصیب کو لاحق نہیں رہی۔ اسی ضمن میں جو تھوڑی بہت خام خیالی ذہن میں آئی تھی وہ افتخار چودھری کی حمایت میں چلائی تحریک کی ’’کامیابی‘‘ کے بعد ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔ اس کے باوجود دیانت داری سے یہ چاہتا ہوں کہ موجودہ چیف جسٹس بروقت ریٹائر ہوں اور ان کی جگہ لینے کے لئے جو عزت مآب جج اصولی اور روایت کے مطابق حق دار ہیں اس منصب پر فائز ہوں۔ حکومت مگر ان کے چند حالیہ اقدامات سے خوش نہیں۔ مسلسل الزام لگارہی ہے کہ ان کا قلم اور قانون پر گرفت کا علم تحریک انصاف کی حمایت میں استعمال ہورہا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستوں کے بارے میں 8اکثریتی ججوں کا تفصیلی فیصلہ آجانے کے بعد حکومت کو یہ خوف بھی لاحق ہوگیا ہے کہ مذکورہ فیصلہ لکھنے والے عزت مآب جج چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی ’’مکمل انصاف‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے 8فروری 2024ء  کے روز ہوئے انتخاب کے فارم 45اور فارم 47کے کھاتے کھلوانے کا حکم دیں گے۔ ایسا ہوگیا تو شاید موجودہ حکومت اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ اسی باعث ’’آئینی ترامیم‘‘ متعارف کروانے کی بات چل نکلی ہے۔ وہ ترامیم متعارف ومنظور کروانا ہیں تو آئندہ دس دنوں میں اس کے لئے برق رفتاری سے پیش قدمیاں درکار ہیں۔ اس کے جواب میں کیا آئے گا؟ اس کے بارے میں لاعلم ہوں۔ جس روز یہ کالم لکھ رہا ہوں اس دن سے مگر تحریک انصاف مزاحمتی تحریک چلانے کی ’’ریہرسل‘‘ میں مصروف نظر آئے گی۔ ہفتے کی شام وہ راولپنڈی میں اپنے قائد کے حکم پر ایک اور جلسہ بھی کرنا چاہ رہی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ نوجوانی کی توانائی سے بھرپور سوشل میڈیا کی بدولت ’’ذہن سازی‘‘ پر اجارہ داری کی حامل بتائی یہ جماعت حکومتی اداروں کو کیسے ناکام بنائے گی۔

ای پیپر دی نیشن