نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے خط لکھنے کا انداز!!!!!!

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے بعض شاہان عجم کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ ایسے خطوط کو جو بغیر مہر کے ہوں نہیں پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں محمد رسول اللہ کندہ کرایا۔ پھر یہ انگوٹھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ وہ بھی وفات پا گئے، پھر عثمانؓ کے ہاتھ میں رہی وہ ایک کنویں کے پاس تھے کہ اسی دوران انگوٹھی کنویں میں گر گئی، انہوں نے حکم دیا تو اس کا سارا پانی نکالا گیا لیکن وہ اسے پا نہیں سکے۔ 
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی انگوٹھی چاندی کی تھی، اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ 
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے سونے کی انگوٹھی بنائی، اس کے نگینہ کو اپنی ہتھیلی کے پیٹ کی جانب رکھا اور اس میں محمد رسول اللہ کندہ کرایا، تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں، جب آپ نے انہیں سونے کی انگوٹھیاں پہنے دیکھا تو اسے پھینک دیا، اور فرمایا اب میں کبھی اسے نہیں پہنوں گا پھر آپ ؐ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس میں محمد رسول اللہ کندہ کرایا، پھر آپ کے بعد وہی انگوٹھی ابوبکر ؓ نے پہنی، پھر ابوبکر ؓ کے بعد عمر ؓ نے پھر ان کے بعد عثمان ؓ نے پہنی یہاں تک کہ وہ کنویں میں گر پڑی۔ تو عثمان ؓ نے ایک دوسری انگوٹھی بنوائی، اور اس میں محمد رسول اللہ کندہ کرایا۔ راوی کہتے ہیں وہ اسی سے مہر لگایا کرتے تھے، یا کہا اسے پہنا کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگوں کا اختلاف اس وقت تک نہیں ہوا جب تک انگوٹھی ان کے ہاتھ میں رہی۔ اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس روایت میں مرفوعاً مروی ہے اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے محمد رسول اللہ کندہ کرایا، اور فرمایا کوئی میری اس انگوٹھی کے طرز پر کندہ نہ کرائے۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے ہاتھ میں چاندی کی ایک انگوٹھی دیکھی تو لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوا لیں اور پہننے لگے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی پھینک دی۔ ابوداؤد کہتے ہیں اسے زیاد بن سعد، شعیب اور ابن مسافر نے زہری سے روایت کیا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم دس خصلتیں ناپسند فرماتے تھے، زردی یعنی خلوق کو، سفید بالوں کے تبدیل کرنے کو، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کو، سونے کی انگوٹھی پہننے کو، بے موقع و محل اجنبیوں کے سامنے عورتوں کے زیب و زینت کے ساتھ اور بن ٹھن کر نکلنے کو، شطرنج کھیلنے کو، معوذات کے علاوہ سے جھاڑ پھونک کرنے کو، تعویذ اور گنڈے لٹکانے کو اور ناجائز جگہ منی ڈالنے کو، اور بچے کے فساد کو یعنی اسے کمزور کرنے کو اس طرح پر کہ ایام رضاعت میں اس کی ماں سے صحبت کرے البتہ اسے حرام نہیں ٹھہراتے تھے۔ حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا کہو اے اللہ! مجھے ہدایت دے، اور درستگی پر قائم رکھ، اور ہدایت سے سیدھی راہ پر چلنے کی نیت رکھو، درستگی سے تیر کی طرح سیدھا رہنے یعنی سیدھی راہ پر جمے رہنے کی نیت کرو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے مجھے منع فرمایا کہ انگوٹھی اس انگلی یا اس انگلی میں رکھوں انگشت شہادت یعنی کلمہ کی یا درمیانی انگلی میں (عاصم جو حدیث کے راوی ہیں نے شک کیا ہے) اور مجھے قسیہ اور میثرہ سے منع فرمایا۔ ابوبردہ ؓ کہتے ہیں تو ہم نے علیؓ سے پوچھا: قسیہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا ایک قسم کے کپڑے ہیں جو شام یا مصر سے آتے تھے، ان کی دھاریوں میں ترنج (چکوترہ) بنے ہوئے ہوتے تھے اور میثرہ وہ بچھونا (بستر) ہے جسے عورتیں اپنے خاوندوں کے لیے بنایا کرتی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بھی بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم انگوٹھی اپنے داہنے ہاتھ میں پہنتے تھے۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے صلت بن عبداللہ بن نوفل بن عبدالمطلب کو اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلی میں انگوٹھی پہنے دیکھا تو کہا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی طرح اپنی انگوٹھی پہنے اور اس کے نگینہ کو اپنی ہتھیلی کی پشت کی طرف کئے دیکھا، اور کہا یہ مت سمجھنا کہ صرف ابن عباس ؓ ہی ایسا کرتے تھے، بلکہ وہ ذکر کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم بھی اپنی انگوٹھی ایسا ہی پہنا کرتے تھے۔ عبدالرحمٰن بن حسان کی لونڈی بنانہ کہتی ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھیں کہ اسی دوران ایک لڑکی آپ کے پاس آئی، اس کے پاؤں میں گھونگھرو بج رہے تھے تو آپ نے کہا اسے میرے پاس نہ آنے دو جب تک تم انہیں کاٹ نہ دو، اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں گھنٹی ہو۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے پاس نجاشی کی طرف سے کچھ زیور ہدیہ میں آئے اس میں سونے کی ایک انگوٹھی تھی جس میں یمنی نگینہ جڑا ہوا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اسے ایک لکڑی سے بغیر اس کی طرف التفات کئے پکڑا، یا اپنی بعض انگلیوں سے پکڑا، پھر اپنی نواسی زینب کی بیٹی امامہ بنت ابی العاص کو بلایا اور فرمایا  بیٹی! اسے تو پہن لے
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جو اپنے محبوب کو آگ کا بالا پہنانا چاہے تو وہ اسے سونے کی بالی پہنا دے، اور جو اپنے محبوب کو آگ کا طوق  پہنانا چاہے تو اسے سونے کا طوق پہنا دے اور جو اپنے محبوب کو آگ کا کنگن پہنانا چاہے وہ اسے سونے کا کنگن پہنا دے، البتہ سونے کے بجائے چاندی تمہارے لیے جائز ہے، لہٰذا تم اسی کو ناک یا کان میں استعمال کرو اور اس سے کھیلو۔ معاویہ بن ابی سفیانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے چیتوں کی کھال پر سواری کرنے اور سونا پہننے سے منع فرمایا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے انہیں پھیلانے اور اس کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ تعاون کی توفیق عطاء  فرمائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن