جنوبی لبنان ترکی مصر سعودیہ سب پریشان کیوں؟ 

امریکی صدر بائیڈن نے عجوبہ لیکن بامعنی بیان دیا ہے۔ فرمایا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین مصالحتی بات چیت کریں۔ معنے اس کے یہ ہوئے کہ انہیں 45 ہزار ہلاکتوں کی گنتی مکمل ہونے کا انتظار تھا۔ یہ گنتی پوری ہو چکی لہٰذا اب وقت آ چکا ہے۔ ویسے یہ گنتی جس میں 20 ہزار بچے ہیں، سرکاری ہے۔ فلسطین کے غیر سرکاری ذرائع یہ تصدیق طلب دعویٰ کرتے ہیں کہ غزہ کی 20 لاکھ آبادی میں سے 2 لاکھ کو شہید کیا جا چکا ہے جس میں ستر ہزار بچے ہیں یعنی اسی فیصد آبادی ختم کی جا چکی اور پورا غزہ دنیا کا سب سے بڑا رقبہ رکھنے والا قبرستان بن چکا ہے۔ بائیڈن مثبت اور صحت مند خیالات رکھنے والے صدر ہیں، اکثر امریکیوں کی طرح. چنانچہ انہوں نے وہ ویڈیوز دیکھنے سے یقینا احتراز کیا ہو گا جو باقی سب دنیا دیکھتی ہے، چاہے نہ چاہے ان کے سامنے ٹوئٹر پر، فیس بک پر آ جاتی ہیں اور وہ دیکھ لیتے ہیں۔ ایک سال اس یک طرفہ قتل عام کو ہو گیا اور دسیوں ہزار وڈیو اب تک سوشل میڈیا پر آ چکی ہیں۔ کل کی وڈیوز کی تعداد ہی سو سے زیادہ ہے۔ ایک ان میں غزہ کے ایک چھوٹے بچوں کے سکول پر اسرائیلی بمباری کے فوراً بعد لی گئی ویڈیو بھی ہے۔ جس میں تین تین چار چار سال عمر کے کئی بچے تڑپ رہے ہیں اور اپنے گھٹنوں کو بار بار اوپر اٹھا رہے ہیں، صرف گھٹنوں کو اس لئے کہ گھٹنوں کے نیچے سے ان کی ٹانگیں کٹ چکی تھیں۔ چند لمحے پہلے یہ ٹانگیں موجود تھیں اور وہ دوڑ رہے تھے، ایک دوسرے کا پیچھا کر رہے تھے، کھیل رہے تھے لیکن اچانک بجلی کے کڑکے کی آواز کے ساتھ بم گرا۔ اب وہ لیٹے تڑپ رہے تھے، یہ بات سمجھنے میں انہیں کئی دن لگیں گے کہ اب وہ باقی عمر کیلئے کھیل کود کے حق سے جبراً محروم کر دئیے گئے ہیں، اب وہ زندہ رہے، اگلی بمباری سے بچ بھی گئے، تب بھی معذوری اور محتاجی کی زندگی ان کے حصے میں آئے گی۔ 
بائیڈن نے کہا ، فلسطین کا مسئلہ دو ریاستی فارمولے سے حل ہو گا۔ کون سا دو ریاستی منصوبہ۔ فلسطینی ریاست کا ایک حصہ غزہ پیوندِ زمین بن چکا ، اس کی دس فیصد آبادی ماری گئی، 20 فیصد عمر بھر کیلئے معذور، 30 ،40 فیصد ٹراما میں جا کر نفسیاتی مریض بن گئی۔ مغربی کنارے کے آدھے سے زیادہ رقبے پر اسرائیل کے ناجائز آباد کاروں نے قبضہ کر لیا، باقی آدھے سے کم رہ گیا، وہاں روزانہ کی بنیاد پر درجن سے دو درجن لوگ اسرائیلی شوٹر قتل اور تین چار درجن زخمی کر دئیے ہیں، وہاں بھی بمباری ہوتی ہے، فلسطینیوں کے گھروں پر بلڈوزر چلتے ہیں، انہیں آگ لگا کر تباہ کیا جاتا ہے۔ تین تین چار چار سال کے بچوں کو کوئی چیز مار کر یا انہیں بلڈورز کے نیچے دے کر ہلاک کیا جاتا ہے۔ 
اب بائیڈن کی پریشانی ہے کہ جنگ کو لبنان تک پھیلنے سے روکا جائے۔ لبنان پر محض ایک دن کی بمباری سے چھ سو افراد شہید ہو گئے، کئی ہزار زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں گھس جانے کا ارادہ کر چکی ہے، بس ایک خدشہ ہے، انہیں یہ نہیں پتہ کہ دریائے لطانی پر حزب اللہ کی قلعہ بندیاں کیسی ہیں، وہاں سے کس درجے کی مزاحمت ہو سکتی ہے، کتنے یہودی مارے جائیں گے، مجموعی طور پر اپنی ناقابل یقین ترقی یافتہ سائنسی اور جنگی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اسرائیل نے حزب اللہ کی آدھی سے زیادہ کمانڈر فورس کو ہلاک کر دیا ہے اور اس کے سینکڑوں جنگجو مار ڈالے ہیں۔ حزب کے بہت سے جنگجو اپنی قیادت کا حکم نہ مانتے ہوئے شمالی لبنان اور شام فرار ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے حزب کے بہت سے اسلحہ اور میزائل گودام تباہ کر ڈالے ہیں۔ یہ گودام حزب نے گنجان آبادیوں کے درمیان قائم کئے تھے ، ان کے پھٹنے سے شہری آبادی کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ 
ترکی جو غزہ میں قتل عام کے دوران اسرائیل کو مسلسل ایندھن ، خوراک ، صاف پانی، ضروری تعمیراتی مشینری فراہم کرتا رہا، جنگ کو لبنان کی طرف بڑھتے دیکھ کر پریشان ہو رہا ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ حزب اللہ کی قوت کمزور ہوئی تو شام میں اخوان المسلمون کہیں پھر نہ سر اٹھا لے۔ گزشتہ مہینوں میں صدر طیّب اردگان نے اخوان المسلمون کے وہ بہت سے لوگ پکڑ پکڑ کر مصر اور شام کے حوالے کئے ہیں جنہوں نے گزشتہ برسوں میں اپنے ملکوں سے ہجرت کر کے یہاں پناہ لی تھی۔ دو ماہ پہلے ترکی میں جس بھی شامی شہری پر شک ہوتا تھا کہ وہ اخوانی ہے یا فلسطینوں کا حامی ہے، اس کا گھر نذر آتش کر دیا جاتا تھا، اس کی دکان اور کاروبار پر قبضہ کر لیا جاتا تھا۔ 
______
سب سے زیادہ پریشانی ایران کی ہے جو ترکی کی پریشانی سے ملتی جلتی ہے۔ شام پر ایران کا کنٹرول ہے اور یہ کنٹرول حزب اللہ کا مرہون منت ہے۔ روس کی مدد ایران کو حاصل ہے لیکن اس کی نوعیت فضائی ہے۔ اخوانیوں سے جنگ میں زمینی طاقت صرف حزب اللہ ہے۔ حزب کمزور ہوئی، لڑکھڑا گئی یا تتر بتر ہو گئی تو اخوانی جو زیادہ تر شمال مغربی شام کے ایک آدھ صوبے اور چند دیگر اضلاع تک محدود کر دئیے گئے ہیں، پھر سے پر پرزے نکالیں گے۔ اور شام پر ایران کا کنٹرول متاثر اور کمزور ہو گا۔ 
اس خطرے سے بچنے کیلئے اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خود مداخلت کرے، اپنی فوج شام اور لبنان بھیجے لیکن پاسداران انقلاب کی قیادت جو رہبر اعلیٰ کا ہر حکم مانتی ہے، اس کی جنبش لب کے اشارے پر چلتی ہے، اس معاملے میں متاثل ہے۔ دراصل اسرائیلی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایران کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس کے ڈرون اور میزائل لمبی پرواز کرکے اسرائیل کو خاص نشانہ بنا ہی نہیں سکتے۔ جو بھی ڈرون اور میزائل دور سے آئے گا، اسرائیل کا آئرن ڈرم اسے ہٹ کر کے تباہ کر دے گا۔ اسرائیل کو نقصان پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ نزدیک سے حملہ کیا جائے یعنی ایرانی فوج بڑی تعداد میں جنوبی شام اور جنوبی لبنان جائے۔ اور پاسداران کی قیادت اس کیلئے ابھی بالکل تیار نہیں۔ محدود تعداد میں اس کے فوجی ماہر اور اسلحہ کے ذخائر جب بھی جنوبی یا وسطی شام پہنچائے گئے، اسرائیل نے اگلے ہی دن یہ کمک تباہ کر دی۔ پاسداران اور ایرانی بیوروکریسی کے اندر اسرائیل کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے اور ایرانی حکومت ابھی تک اس جال کا سراغ نہیں لگا سکی۔ 
شام میں اخوان کا خطرہ ہی ہے جس نے سعودی عرب اور مصر کو بھی بے چین کر دیا ہے اور وہ لبنان پر اسرائیل کا حملہ رکوانے کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ اس سارے معاملے میں مذکورہ بالا سارے منظر نامے سے قطع نظر، عجیب بات یہ ہوئی ہے۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کی مسلسل مذمت کر رہا ہے، باقی ایک ہی ملائیشیا میں ہے۔ کل بھی شہباز شریف نے امریکہ میں زوردار مذمتی تقریر کی۔

ای پیپر دی نیشن