مقبوضہ کشمیر: نام نہاد انتخابات، قابض فورسز نے 60 سے زائد تعلیمی اداروں پر قبضہ جما لیا

Sep 27, 2024

سری نگر(کے پی آئی )مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز نے ضلع بارہمولہ میں کم از کم 61 تعلیمی اداروں پر قبضہ جما لیا ہے جسکی وجہ ان اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ان تعلیمی اداروں کو بھارتی پیرا ملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس(سی آر پی ایف) ، جموںوکشمیر آرمڈ پولیس ( جے کے اے پی ) اور انڈین ریزرو پولیس (آئی آر پی) نے نام نہاد اسمبلی انتخابات کے سلسلے اپنے کیمپوں میں تبدیل کردیاہے۔ محکمہ تعلیم کے حکام نے بھی فی الوقت ان تعلیمی اداروں کی بندش کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں 2014 کے بعد ہونے والے انتخابات میں پہلی بار 15 ممالک کے غیر ملکی سفارت کاروں کو ووٹنگ کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دی گئی۔  غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سری نگر اور نئی دہلی کے عہدیداروں نے بتایا کہ امریکہ، میکسیکو، سنگاپور، اسپین، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کے سفارت کار شامل ہیں۔مودی انتظامیہ نے ضلع کشتواڑ میں ایک اور کشمیری مسلمان افسر کو معطل کر دیا ہے۔  مودی انتظامیہ کے ضلعی الیکشن آفسر (ڈی ای او) نے ڈپٹی سی ای او کشتواڑ مسعود احمد قاضی کی معطلی کا حکمنامہ جاری کیا۔ حکم نامے میں کہا گیا  ہے کہ مسعود احمد قاضی کو بغیر پیشگی اجازت کے ہیڈ کوارٹر چھوڑنے پر معطل کیا گیا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہائی کورٹ نے 29 مقامی سیاست دانوں کو سرکاری رہائش گاہیں خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ سیاست دانوں کو سرکاری رہائش گاہیں خالی کرنے کا حکم چیف جسٹس تاشی ربستان اور جسٹس پونیت گپتا پر مشتمل ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے دیا۔ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما اور بھارتی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے کہا ہے کہ اگر بی جے پی حکومت نے اسمبلی انتخابات کے فوراْ بعد جموںوکشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہیں کیا تو انڈیا بلاک سخت احتجاج کرے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں دس سالوں میں پہلی بار مقامی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں جس پر عوام کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ج ا رہا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کئی دہائیوں سے بھارتی فوج کی پرتشدد کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور دہلی کے ساتھ کشمیر کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ دس سالوں میں پہلی بار کشمیر میں مقامی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں جس پر عوام کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے، کچھ لوگ انتخابات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں تو کچھ ووٹ ڈال رہے ہیں۔ 

مزیدخبریں