لاپتہ افراد کیس، حساس اداروں سے ان کیمرہ بریفنگ طلب، موثر پالیسی بنانے کی ضرورت: جسٹس محسن

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کا جبری گمشدگیوں کے معاملے پر اہم اقدام، حساس اداروں کے افسروں  کو ان کیمرا بریفنگ کے لیے طلب کرلیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کے حل کے لیے ایک مؤثر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وزارت دفاع اور حساس اداروں کو ہدایت کی کہ وہ پالیسی اور میکنزم تیار کر کے وفاقی حکومت کے سامنے پیش کریں تاکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو ممکن بنایا جا سکے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کمشن میں 80 فیصد کیسز حل ہو چکے ہیں۔ تاہم، جسٹس کیانی نے یہ سوال اٹھایا کہ ان افراد اور ان کے اہل خانہ پر کیا گزری ہوگی؟۔ انہوں نے اس معاملے کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا کہ وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ صرف اگست سے لے کر اب تک 187 افراد جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ بلوچستان میں بھی لوگوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا جا رہا ہے۔ جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے گزشتہ روز عدیلہ بلوچ کی پریس کانفرنس تھی وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے آج ہم آرڈر کر رہے ہیں جن افراد کو کمیشن جبری گمشدہ ڈکلئیر کر چکا ان کی فیملی کے لئے پچاس پچاس لاکھ روپے کے چیک لے کر آئیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اے ٹی سی پر یقین نہیں ہے تو پھر بنالیں ملٹری کورٹس بنالیں۔ لاپتہ افراد ایک حقیقت بن چکے ہیں، بلوچستان کے حالات ہیں وہ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں، ابھی مالم جبہ میں جو ہوا یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے، موجودہ حالات میں آرمی اور سکیورٹی اداروں کے 3 سو سے زائد جوان شہید ہوگئے۔ ان حالات میں آرمی یا سکیورٹی اداروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا مگر ایک طریقہ اپنانا ہوگا۔ عدالت نے حساس اداروں پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کو آئندہ ان کیمرا سماعت میں مکمل بریفنگ دینے کا حکم دیا ہے اور لاپتہ افراد کمشن کی کارکردگی پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ سنگین صورتحال جہاں ریاست اور اداروں کو چیلنجز کا سامنا ہے، اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے کہ جبری گمشدگیوں جیسے حساس مسائل کا فوری اور مؤثر حل تلاش کیا جائے۔ عدالت نے  سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن