مناظرہ یا مباہلہ ؟

Apr 28, 2013

فضل حسین اعوان

انتخابی مہم اب عروج اور جوبن پر ہے ۔اس میں دہشت گردی اور خونریزی کا فیکٹر بھی نمایاں ہو رہا ہے لیکن جمہوری قوتیں دہشتگردوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں بڑے عزم کے ساتھ مزاحم ہیں۔ اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں اے این پی کے جلسے پر حملے میں بارہ افراد جاں بحق ہوگئے ایک روز قبل کراچی میں ہی ایم کیو ایم کو چھ نعشیں اٹھانا پڑی تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی عسکریت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر ہے لیکن وہ ایک بڑی پارٹی ہونے کے باوجود انتخابی مہم محتاط ہو کر چلا رہی ہے۔ دہشتگردی کے خطرات سے دوچار جماعتیں اپنے اوپر ہونے والے حملوں پر غمزدہ ضرور ہیں، خوفزدہ نہیں۔ ان کو انتخابات سے دور رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن وہ انتخابی مہم میں ڈٹی ہوئی ہیں۔ وہ دہشت گردوں کے تیروں کے سامنے اپنا جگر آزما رہی ہیں۔ انتخابی مہم میں کوئی کجی اور کمی نہیں آنے دے رہیں۔ پاکستان کے ہر حصے میں، ہر پارٹی اپنے اپنے انداز میں کمپین کر رہی ہے۔ اے این پی اور متحدہ کئی علاقوں میں ان ڈور مہم چلا رہی ہیں وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی روایتی مہم عروج پر ہے۔ ان کی قائدین پورے ملک میں بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں جس پر دہشتگردی کا نشانہ بننے والی پارٹیاں کچھ بے چینی سی محسوس کرتی ہیں۔ ان کا یہ شکوہ اور گِلا بجا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے قائدین یعنی نواز شریف اور عمران خان اپنے انتخابی جلسوں میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کی مذمت نہیں کرتے، اصولی طور پر ان کو مذمت کرنی چاہئے۔ مذمت نہ کرنے کا ان کے ترجمانوں کے پاس کوئی ڈھنگ کا جواب نہیں ہے، وہ آئیں بائیں شائیں کر کے سوال کو ٹال جاتے ہیں۔ شاید مذمت کر کے وہ حملہ آوروں کو اپنے گھر کا راستہ نہیں دکھانا چاہتے۔
مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں اور ٹی وی چینلز پر جوش و خروش دیکھ کر کچھ لوگ خوش فہمی اور کچھ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ پی پی پی نے انتخابی دوڑ سے باہر ہو کر واک اوور دے دیا ہے۔ یقیناً پیپلز پارٹی اپنی پانچ سالہ کارکردگی کا بویا ہی کاٹے گی لیکن وہ انتخابی دوڑ اور میدان سے باہر نہیں ہے۔ بڑے بڑے جلسے کرنا ہی انتخابی مہم نہیں، کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور کنونسنگ بھی مہم کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے کوئی حلقہ خالی نہیں چھوڑا۔ وہ اپنے اتحادیوں سے مل کر الیکشن لڑ رہی ہے۔ اس کے امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں سرگرم ہیں۔ جلسے جلوسوں کی کسر پی پی پی میڈیا میں اشتہاروں سے نکال رہی ہے اشتہاری مہم میں بلاشبہ پیپلز پارٹی دیگر جماعتوں سے کہیں آگے ہے۔ جلسے جلوسوں کے تناظر میں پی ٹی آئی نے کسی حد تک یہ تاثر قائم کر دیا ہے کہ اسکا مقابلہ ن لیگ سے ہوگا، ن لیگ نے پی ٹی آئی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیکر اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے۔ البتہ عمومی رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کا گراف انتخابی مہم کے بعد بتدریج بڑھ رہا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان پی پی پی کو تو ہونا ہی ہے، ن لیگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پائے گی۔ پیپلز پارٹی اقتدار کے بعد جس طرح بدنام ہونے کے ساتھ بے نام ہو رہی تھی اس کے تمام تر ثمرات ن لیگ نے ہی سمیٹنا تھے، اسے ایک بار پھر 1997ءجیسا ہیوی مینڈیٹ ملتا نظر آ رہا تھا جس کی خماری بھی طاری ہو رہی تھی کہ درمیان میں عمران خان آ گئے چنانچہ اب ن لیگ کی 1997ءوالی جے جے کار تو ہونے سے رہی تاہم آج تک کی صورتحال کے مطابق ن لیگ ہی پہلے نمبر پر دکھائی دیتی ہے۔ انتخابات میں ابھی چند دن باقی ہیں اس دوران ہَوا کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی اور ن لیگ کی آپس میں پوزیشن بدل سکتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بجلی کا بحران لے بیٹھا ہے وہ کم از کم اس کے باعث اگلے دس سال تو اُٹھنے کے قابل نہیں رہی بشرطیکہ آنے والے حکمران خود کو کفن چور کے پُتر ثابت نہ کر دیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں تبدیلی آنے سے بھی وہ بھٹوز کی پارٹی بن سکتی ہے۔ سیاست میں موروثیت تو نہیں ہونی چاہئے لیکن پی پی پی میں موروثیت بھی اصولی نہیں ہے بھٹو کے اصل وارثوں کے پاس پیپلز پارٹی چلی گئی تو اس میں جان پڑنے کے امکانات موجود ہیں۔
دہری شہریت اور جعلی ڈگریوں کے معاملے میں جہاں مسلم ن کی طرف سے اصولی مو¿قف سامنے آتا رہا ہے، اس نے خود سے ایسے لوگوں سے استعفے لئے، وہیں اس نے ایک بار پھر اپنے آپ کو ایسی ہی دلدل میں پھنسانے کا اہتمام بھی کر لیا ہے۔ اس کی طرف سے بہت سے پرانے لوگوں کو ٹکٹ دے دئیے گئے جن کی جعلی ڈگریوں سے قیادت لاعلم نہیں ہے۔ ن لیگ کو اس حوالے سے سُبکی کا سامنا کرنا پڑے گا یا پھر 1998ءکی تاریخ دہراتے ہوئے سجاد علی شاہ کی جگہ اپنا اجمل میاں لانا پڑے گا کیونکہ سعیدالزماں صدیقی ڈھونڈنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
عمران خان نے میاں نواز شریف کو مناظرے کاچیلنج دیا ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ مہذب جمہوری ممالک میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ گلوبل ویلج میں دنیا بش اور اوباما کے مباحثے سُن چکی ہے لیکن یہ مہذب ممالک میں ہوتا ہے، ہم جیسے ممالک میں نہیں جس میں ن لیگ کے ترجمان کہیں کہ بھگوڑے سے مباحثہ نہیں ہو سکتا۔ اس طریقے سے مناظرے سے گریز درست نہیں ہے۔ ہم شاید ابھی تہذیب کے وہ مراحل طے نہیں کر سکے کہ ہمارے قائدین ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ ے اور دوسرے کو مطعون کئے بغیر گفتگوکر سکیں۔ عمران کو مقابلتاً مہذب سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے اندر سے بھی پاکستانیوں والے اوصاف پورے طریقے سے نکلے نہیںہیں۔ ڈیڑھ دو ماہ قبل اسلام آباد میں ایک اے پی سی کے دوران عمران خان نے میاں نواز شریف سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا جبکہ نواز شریف نے تو مسجد نبوی میں ”مشرف “ سے بھی ملاقات کر لی تھی (وہ مشرف کی نقل کرنے والا اداکار تھا)۔ انتخابی مہم میں سفید کو سیاہ، کوّے کو سفید بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ گِٹے جوڑ کر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے لیڈر کو صادق اور امین ماننے اور دوسروں کو فاسق اور فاجر قرار دینے پر مُصر ہے۔ یہ رویہ ہمارے باشعور ہونے تک یونہی برقرار رہے گا۔ہم اسی جمہوریت کے اسیر اور انہیں سیاستدانوں کے رحم و کرم پر رہے توہمارے باشعور ہونے میں شائد کئی صدیاں لگ جائیں۔ ہمارا ہر سیاستدان اور پارٹی قائد باور کراتا ہے کہ وہی صادق و امین، محب وطن، قوم سے مخلص اور عوام کا خیر خواہ ہے۔کیوں یہ لیڈر مناظرے اور مباحثے کے بجائے آپس میں مباہلہ کر لیں۔ جس سے سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آ جائے گا اور قوم کی فریب کاروں سے بھی جان چھوٹ جائے گی ۔ خود کو پارسا ثابت کرنے کے لئے ہر پارٹی کی پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادتوں کے ساتھ ساتھ کارکنوں کے درمیان بھی مباہلے ہو جائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

مزیدخبریں