ایک دن کی بھکارن

Apr 28, 2013

سیف اللہ سپرا

انسانی معاشرے میں بھکاریوں کی تاریخ بھی شاید اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی ۔ یہ لوگ دنیا کے تقریباً ہر علاقے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی ان کی ایک بڑی تعداد اپنے کاروبار میں مصروف ہے۔ ایک محتاط انداز ے کے مطابق وطن عزیز میں اس وقت 2 کروڑ پچاس لاکھ کے قریب بھکاری موجود ہیں۔ جو ریلوے سٹیشنوں ، بسوں کے اڈوں، پارکوں، چوراہوں، بازاروں کے علاوہ مساجد اور مزاروںکے باہر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں ۔
یہ لوگ یوں تو پورے ، ملک میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن کراچی ، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں ان کی تعداد زیادہ ہے ۔ خصوصاً لاہو ر کی بڑی شاہراہوں کے ٹریفک سگنلز پہ جونہی گاڑیاں رکتی ہیں تو بھکاری مختلف بھیس میں ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ بعض بھکاریوں نے تو اس قدر قابل رحم حالت بنا رکھی ہوتی ہے کہ سخت سے سخت دل بھی موم ہوجاتا ہے اور ائرکنڈیشنڈ کار کا شیشہ اتا ر کر کچھ نہ کچھ بھیک اس بھکاری کو ضرور دیتا ہے ۔
 لاہور کے دوسرے شہریوں کی طرح میرا سامنا بھی ٹریفک سنگنلز پر کھڑے ان بھکاریوں سے اکثر ہوتا ہے میں نے ان چوراہوں پر بڑے بڑے پروفیشنل بھکاری دیکھے ہیں۔ جن میں جعلی معذور، جعلی ہیجڑے اور صحت مند بھکاری شامل ہیں اور پھر اس وقت ان جعلی معذور بھکاریوں کو تندرستوںسے زیادہ تیز دوڑتے بھی دیکھا ہے جب پولیس ان کے خلاف کاروائی کرتی ہے۔ اس وقت ان بھکاریوں ، جنہوں نے اپنے بازو قمیض کے اندر چھپا کر یہ تا ثر دے رکھا ہوتا ہے کہ ان کے بازو نہیں ہیں یاٹانگیں اکٹھی کرکے رینگ رہے ہوتے ہیں، اچانک انکے بازو اور ٹانگیں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔
 اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ان بھکاریوں میں زیادہ تعداد ایسے بھکاریوں کی ہوتی ہے جوبالکل ٹھیک ہوتے ہیں اورکام کاج کے قابل ہوتے ہیں ان جعلی بھکاریوں کی بھیڑ میں میں نے تقریباً ایک ماہ قبل لاہور کے شاد مان چوک پر ایک ایسی بھکارن دیکھی جس نے میرے سمیت وہاں گاڑیوں پر بیٹھے کئی لوگوں کو پریشان کردیا ۔ اس بھکارن کی عمر تقریباً 18سال ہوگی۔ سانولی رنگت خوبصورت نقش، درازقد، صاف ستھرا مگر قدرے پرانا لباس اور سکارف زیب تن کئے ہاتھ میں کچھ شام کے اخبارات پکڑے گرین بلٹ پر کھڑی تھی ۔ یہ لڑکی کسی سے بھیک نہیں مانگ رہی تھی۔ بس خاموشی سے پریشان کھڑی تھی ایسے لگ رہا تھا کہ اس کی آنکھ میں آنسوﺅں کا ایک سمندر ہے جو اس نے زبر دستی روک رکھا ہے لوگ خود گاڑیوں کے شیشے نیچے کرکے اسے اپنی طرف بلا کر کچھ بھیک دیتے ۔ اس کے بھیک مانگنے کے انداز سے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ بھیک نہیں لینا چاہتی لیکن مجبوراً ایسا کررہی ہے۔ میں بھی اسے کچھ دینا چاہتا تھا لیکن اتفاق سے میری جیب نے اس وقت اجازت نہ دی۔
 تنخواہ جمع کرانے کے بعدگھر سے جو ”جیب خرچ“ ملتا ہے اس سے صرف لنچ ہی ہو سکتا ہے وہ بھی بغیر چائے کے لیکن میں نے تہیہ کر لیا کہ اگلے روز اس لڑکی کو ضرورکچھ رقم دوں گاچنانچہ اس روز لنچ سے ہاتھ کھینچ کر صرف چائے پر گزارا کیا ۔
میں آفس سے فارغ ہوا اور شادمان چوک پہنچا تو وہاں پر وہ بھکارن موجود نہیں تھی۔ اس کی عدم موجودگی سے مجھے نہ صر ف بہت دکھ ہوا بلکہ میرے ذہن میں کئی سوال ابھرے مثلاًکسی نے اس لڑکی کو اغواءکر لیاہوگا یا بھکاریوں کے مافیا نے اسے اس اڈے پر بھیک مانگنے کی اجازت نہ دی ہوگی یا اس کا مسئلہ حل ہوگیا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں بھیگ مانگنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ اسلام میں اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے لیکن ساتھ ساتھ زکوة کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ صاحب ثروت خود اپنے مال سے زکواة نکالیں اورضرورت مندوںکا پتہ چلا کرانہیں دیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی 18کروڑ آبادی میں سے اڑھائی کروڑ لوگ بھیک مانگ رہے ہیں حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
 ان اڑھائی کروڑ میں سے جو صیحح معنوں میںمستحق اورضرورت مند ہیں ان کے وظائف مقرر کئے جائیں تاکہ جو لوگ شاد مان والی لڑکی کی طرح بھیک نہیں مانگنا چاہتے انہیں بے بسی کی حالت میں چوراہوں پر نہ کھڑا ہونا پڑے اور جو لوگ تندرست ہےں اورکام کاج کے قابل ہیں انہیں کام پر لگایا جائے۔

مزیدخبریں