بہت سے ملکوں میں، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ملک کے بہترین دماغوں پر مشتمل بیورو کریسی ایک ایسی ٹیم یا ٹیمیں ہوتی ہیں جو ملکی قوانین اور آئین کے مطابق کاروبارِ مملکت کو چلانے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن بیورو کریسی اپنے اپنے مقام پر قائم رہتی ہے۔ ان کی وفاداریاں کسی مخصوص حکومت سے نہیں صرف ریاست سے ہی وابستہ رہتی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کے زمانے سے موجود ایسی بیورو کریسی ہمیں ورثے میں ہی ملی، یہ بیورو کریسی کٹھن امتحانوں سے نکل کر خالصتاً میرٹ اور اعلیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر وجود میں آتی اور پھر بھرپور تربیت پا کر سرکاری ذمہ داریوں پر مامور ہوتی۔ وہ نظم و ضبط کی اس قدر پابند ہوتی جیسے یہ اس کے وجود کا حصہ ہو۔ ایسے میں کوئی بھی بیورو کریٹ قوانین سے ہٹ کر کسی کج روی یا بدعنوانی کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ جہاں کہیں، کرپشن یا رشوت ستانی، جیسی کوئی واردات ہو جاتی سختی سے اس کا نوٹس لیا جاتا اور ایسا کرنے والے یا والوں کے خلاف قوانین کے مطابق، انضباطی کارروائی عمل میں لائی جاتی۔
تو یہی وہ بیورو کریسی ہی تھی جس نے مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے پر نہایت بے سرو سامانی کے عالم میں اسے سنبھالا دیا۔ تنکا تنکا اکٹھا کیا اور دن رات ایک کر کے اسے مضبوط اور مستحکم بنیادوںپر کھڑا کر دیا اور ان لوگوں کے منہ بند کر دئیے جو اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ پاکستان چند دنوں کا ہی مہمان ہو گا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے اسے اس مقام پر پہنچا دیا کہ یہ نہ صرف اسلامی دنیا کا ایک اہم ملک ہی نہیں پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن کر سامنے آیا۔ ہمارے ہاں اسی بیورو کریسی میں ایسے نامور بیورو کریٹ بھی ہو گزرے ہیں، جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت میں جہاں اپنی اہلیتوں اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا، وہاں کمال محنت، دیانتداری اور قومی وفاداری میں بھی نام کمایا۔
اس بیورو کریسی کو ایک سنگین دھچکا اس وقت لگا جب پاکستان میں بدترین اکھاڑ پچھاڑ کے بعد ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی۔ بھٹو ایک زیرک سیاستدان تھے لیکن پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد، جب عنانِ اقتدار ان کے ہاتھ میں آئی تو سوشلزم کے جنون میں ان سے جو غلطی سرزد ہوئی وہ ان کا ملک بھر میں چھوٹی بڑی تمام صنعتوں اور بینکوں کو قومی تحویل میں لینا تھا جس سے ملکی معیشت تباہ ہو کر رہی گئی اس کے مہلک اثرات ابھی تک دور نہیں ہو سکے۔ دوسری لغزش ان سے یہ ہوئی کہ اپنی من مانی حکمرانی کی نادانی میں انہوں نے اس منظم اور اعلیٰ بیورو کریسی کی ایسی تیسی کر کے رکھ دی۔ انگریز کے بنائے ہوئے وہ قوانین جو بیورو کریسی کو تحفظ دیتے تھے، یکسر بدل کر ایسے قوانین بنا دئیے جن سے یہ بیورو کریسی، حکمرانوں کی تابع مہمل بن کر رہ گئی اور وہ وہی کرنے پر مجبور ہوئی جو حکمرانوں نے چاہا، یعنی وہ کیا، جو پیا من بھایا۔ تو یوں ان کی نوکریوں کا دار و مدار اور انحصار، حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا یہاں تک کہ افسروں اور اہلکاروں کی تقرریاں اور تبادلے، ان کی اہلیتوں اور صلاحیتوں کو نظر انداز کر کے سراسر سیاسی بنیادوں پر ہونے لگے اور پھر یہ بھی ہوا کہ ان کی بھرتیوں تک کے کوٹے اسمبلیوں کے ممبروں کو دئیے جانے لگے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بیورو کریسی سیاستدانوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی ہی نہیں ان کی باندی بن کر رہ گئی اور ان کیلئے یہ معاشرتی اثر و رسوخ کے علاوہ، بڑی کمائی کا ذریعہ بن گئی۔ بھرتیوں سے لیکر من پسند تقرریوں اور تبادلوں کیلئے پیسہ چلنے لگا۔ ہر پوسٹ کی اہمیت اور حیثیت کے مطابق بولیاں لگنے لگیں۔ فرائضِ ملازمت میں جزا اور سزا کے فیصلے پیسوں پر ہونے لگے۔ گھر بیٹھ کر تنخواہ لیں یا دفتر جا کر، یہ معاملات بھی پیسوں کے ذریعے طے ہونے گے۔
اور اب جب ”محمود و ایاز“ اس بھیانک کرپشن کی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آنے لگے تو یہاں نہ کوئی ضبط رہا نہ قانون، اوپر سے نیچے تک پیسہ ہی وسیلہ بنا اور پیسہ ہی قانون، اور اب یہ جو ملک بھر میں ہر طرف افراتفری، لاقانونیت، مار دھاڑ، دہشت گردی، کھلے عام چوریاں، ڈاکے اور نہ جانے کیا کیا سیہ کاریوں کا دور دورہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں ان سیاستدانوں نے بیورو کریسی کو ایک عضوِ معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ آپ ہی بتائیے جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگے تو اس کھیت کو کون بچا سکتا ہے؟۔
بیورو کریسی میں یہی سیاسی وابستگیاں، اب ملک و قوم کیلئے اس قدر دردِ سر بن چکی ہیں کہ اس سے چھٹکارا پانا بظاہر مشکل نظر آ رہا ہے اور اب جو ملک میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان کو کرانے کیلئے نیوٹرل اور غیر وابستہ افسروں اور اہلکاروں کی تلاش موجودہ عبوری حکومت کیلئے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اس لئے وہ ملک بھر میں ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک تھوک کے بھاﺅ تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہو رہی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خرابی ملک بھر میں کس قدر سرائیت کر چکی ہے اور اس کا مستقل تدارک کس قدر ضروری ہے۔ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی، اس پر بھی غور کرنا چاہئے اور اس کے مداوا کیلئے بھی کوئی سبیل نکالنی چاہئے ورنہ ملک کو نارمل حالات پر لانے کا معاملہ، خیال است، محال است ہی رہے گا۔ کیا ہی اچھا ہو، عوام ان انتخابات میں ووٹ ان لوگوں کو دیں جو اس خرابی کو دور کرنے کی ضمانت دے سکیں۔ ویسے بھی ملک میں تبدیلی لانے کے دعویداروں کیلئے، یہ تبدیلی ایک سخت چیلنج ہو گی۔ چلو یہ معاملہ بھی ہم عمران خان کے حوالے ہی کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ اسے کیسے لیتے ہیں۔ یوں بھی وہ آجکل ”آزمائش شرط ہے“ قرار دئیے جا چکے ہیں تو یہ بھی آزمائش سہی۔
بیورو کریسی تابع مہمل کیسے بنی؟
Apr 28, 2013