مکرمی!چکوال کے شکسپئر اور ججوں کی ان پڑھی کے شاکی کلیئر ہونے کے بعد اور مسلم لیگ ن کے فلٹر میں پھنس گئے ہیں ۔ نظریہ پاکستان سے اعلانیہ اورمسلسل انکاری ایاز کو اس نظریاتی بنا پر ٹکٹ سے انکار نہیں ہوا بلکہ ان کی آزاد روی بلکہ بطور صحافی پارٹی تنقید پر ہوا ہے۔ نظریہ پاکستان کا انکار شراب پینے سے بھی بڑا جرم ہے۔ تمام اندازوں کے برعکس ق لیگ اب بھی خبروں میں ہے۔ پچھلے انتخاب میں اس کا سارا اعتماد جیتنے والوں اور جنرل مشرف پر لگا بلوچستان میں بڑی پارٹی ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی کے سامنے ڈھیر ہوگئی ۔ ایم کیو ایم کے نکلنے کے بعد اور ن لیگ کے انکار کی وجہ اور اپنے کیسوں کے باعث حکومت کا سہارا بن گئی۔ مشرف کی حکومت بھی اس کے دم قدم سے اور زرداری کی حکومت بھی ۔آزاد امید وار وں کی طرح یہ ایک بڑا برائے فروخت میڑیل ہے مسلم لیگ کا پھٹہ استعمال کرنے والی اس ممنوعہ کو نہ نظریاتی پاکستان سے غرض ہے نہ منکوحہ ن لیگ کو اس وقت نظریاتی طور پر پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور ق لیگ میں کوئی فرق نہیں سب کی آس امید جیتنے والے لوگ ہیں جنہوں نے نوابیاں اور راجواڑے قائم کررکھے ہیں ۔ ہے کوئی آرٹیکل جو ایسے لوگوں کو نا اہل قراردے لیکن جو ایسے تھے ا ن پر کب عمل ہوا ہے۔مشرف کاغذات سارے حلقوں سے مسترد ہوگئے ہیں سزا دلانے کے لئے تو اب کاروائی شروع ہوئی ہے۔ پرویز اشرف کی طرح اس کو بھی مشروط اجازت دے دیتے تو اس کو بھی اپنی مقبولیت کا پتہ چل جاتا اور قوم کو بھی۔ اب پھنسے ہوئے کو مارنے والے بے مقصد مشق میں مصروف ہیں ۔اس کو ہر دوسرے شہری کی طرح سیاست کا حق ہے اور ہر سیاستدان کی طرح عدالتی عمل کا اس کو بھی سامنا ہوگا جس میں الیکشن لڑنا یا جیتنا حائل نہیں ہوسکتے ۔ویسے کیا خیال ہے جن لوگوں نے اس کے اقتدار کو طول دینے کے لئے این آراو کرایا اور چار سا ل اس کی خاطر مدارت کی وہ بے مقصد واپس لے آئے ہوںگے اس کے دور کا تسلسل تو ہے یہی ہوسکتا ہے وہ اس کو انتخابی عمل کے ذریعے لیڈر بنانے کی پلاننگ ہورہی ہو۔ اور پھر مزید اس سے خدمت لینے کی کوشش ہو۔(محمد شریف،واپڈا ٹاﺅن لاہور03037255474)