جاوید احمد عابد شفیعی
وعدہ وہ سیاست دانوں کا ہم دیکھیں گے؟
ممکن ہے وفا بھی ہوتا ہوا ہم دیکھیں گے؟
کہتے ہیں سبھی ہم بدلیں گے تقدیروں کو
توڑیں گے غلامی کی آکر زنجیروں کو
ان کا کبھی یہ آہنی مکا ہم دیکھیں گے؟
وہ روٹی، کپڑا اور مکاں وعدہ ہی رہا
غریب بیچارہ سادہ تھا سادہ ہی رہا
الیکشن میں بھٹو کو پھر زندہ ہم دیکھیں گے؟
دہلیز پہ باطل کی بیٹھے فقیروں کو
محلات میں چین سے سوئے ہوئے امیروں کو
عبرت کا نشاں کس دن بنتا ہم دیکھیں گے؟
ممکن نہیں مرنے سے پہلے ہم دیکھ سکیں
چوراہوں پہ ڈاکو چور سبھی جس دم لٹکیں
کیا ایسا بھی کوئی مسیحا ہم دیکھیں گے؟