اسلام آباد (سجاد ترین/ خبرنگار خصوصی) بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کے دوران سابق صدر پرویز مشرف نے دوسرے روز یہ انکشاف کیا ہے کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ سے بے نظیر بھٹو کی واپسی کا روٹ سابق ڈی جی آئی بی اعجاز شاہ کی ہدایت پر انتظامیہ نے تبدیل کیا تھا اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ پرویز مشرف نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کو بتایا کہ 27 دسمبر 2007ءسے ایک روز قبل رات گئے خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ حکام بے نظیر بھٹو کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ 27 دسمبر کو لیاقت باغ میں جلسہ عام میں شرکت نہ کریں۔ خفیہ اداروں کے اعلیٰ حکام کی بے نظیر بھٹو سے تین گھنٹے تک ملاقات جاری رہی مگر وہ بے نظیر بھٹو کو روکنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ایف آئی اے حکام نے بتایا پرویز مشرف سے جو تحقیقات ہو رہی ہے اور اس دوران جنرل مشرف کی جانب سے جو جوابات دئیے جا رہے ہیں ان کی روشنی میں آئی بی کے سابق سربراہ اعجاز شاہ سے بھی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کو پرویز مشرف نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کو ٹیلی فون پر کبھی دھمکی نہیں دی اگر دھمکی دی جاتی تو پھر ان سے مذاکرات کس طرح کامیاب ہو سکتے تھے۔ نجی ٹی وی کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے سابق صدر پرویز مشرف سے ایک نکتے پر تفتیش کی اور سوال کیا کہ کیا کبھی بے نظیر بھٹو کو فون پر دھمکی دی تھی۔ نجی ٹی وی کے مطابق پرویز مشرف نے جواب دیا کہ بے نظیر بھٹو ٹیلی فون پر رابطے میں تھیں مگر کبھی دھمکی نہیں دی۔ بے نظیر بھٹو کی ٹیم نے مجھ سے مذاکرات بھی کئے اگر دھمکی دیتا تو مذاکرات کیسے کامیاب ہو سکتے تھے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پرویز مشرف کے جوابات کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے خالد قریشی کی سربراہی میں 4 رکنی ٹیم نے پرویز مشرف سے سب جیل قرار دیئے گئے ان کے فارم ہاﺅس پر تفتیش کی بنوں کے ڈی آئی جی آزاد خان، ڈی آئی جی سہیل تاجک، ڈائریکٹر آئی بی واجد ضیا ٹیم میں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سابق صدر پرویز مشرف سے بے نظیر بھٹو کی موت سے قبل سکیورٹی انتظامات اور بعد میں پیش آنے والی صورت حال کے حوالے سے سوالات کئے گئے۔ تحقیقاتی ٹیم نے بریگیڈئر ریٹائرڈ جاوید اقبال چیمہ کی نیوز کانفرنس اور اس وقت کے انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل اعجاز شاہ کے بیانات کے حوالے سے بھی سوال کئے۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی ٹیم نے تفتیش کے حوالے سے پرویز مشرف کو سوال نامہ دیا اور ان سے پوچھا کہ سانحہ 27دسمبر 2007ءکو بے نظیر بھٹو کے قتل کے فوری بعد کرائم سین صاف کرنے کا حکم کس نے دیا؟ بےنظر بھٹو کو انتخابات سے قبل ممکنہ حملے کے بارے میں کس بنیاد پر آگاہ کیا گیا؟ بے نظیر قتل کیس کی سازش کس نے تیار کی؟ بینظیر بھٹو کو خطرات کے باوجود سکیورٹی کیوں فراہم نہیں کی گئی؟ بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم کس کے کہنے پر رکوایا گیا؟ بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی کے لئے کیا انتظامات کئے گئے تھے؟ اور لیاقت باغ جلسے کے حوالے سے بے نظیر کو پیشگی خطرات سے آگاہ کیا گیا تھا؟ ذرائع کے مطابق پرویز مشرف نے کہا کہ وہ اس وقت صدر تھے اور سکیورٹی فراہم کرنا ان کی ذمہ داری نہیں تھی، بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی کے بارے میں اس وقت کے وزیراعظم اور متعلقہ انتظامیہ سے پوچھا جائے، تحقیقاتی ٹیم نے پرویز مشرف کو امریکی صحافی مارک سیگل کی ای میل کے بارے میں بھی سوال کیا۔ تفتیشی ٹیم نے سب جیل میں سابق صدر سے ان کے ابتدائی بیان پر دستخط بھی لئے۔ آئی این پی کے مطابق سپیشل برانچ سمیت ایک اور خفیہ ایجنسی کو سابق صدر پرویز مشرف کے فارم ہاﺅس پر متعین سکیورٹی اہلکاروں کا ریکارڈ چیک کرنے اور خفیہ مانیٹرنگ کا خصوصی ٹاسک سونپ دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق سکیورٹی حکام کی جانب سے خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ فارم ہاو¿س پر متعین افراد کے کوائف کی خصوصی طور پر جانچ پڑتال کی جائے، مشرف کے فارم ہاﺅس کے گرد رینجرز کی 7 پکٹس لگا دی گئی ہیں۔ مشرف فارم ہاﺅس سکیورٹی کےلئے ایس ایم جیزکے ساتھ ساتھ رینجرز بنکرز کی تنصیب کی گئی ہے جبکہ ڈیوٹی پر متعین ہرگن مین کو 200گولیاں دی گئی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ روشنی ، سموک شیلز اور بلٹ پروف جیکٹس سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کردی گئی ہیں۔ آئی این پی کے مطابق پرویز مشرف نے تمام مقدمات اورطالبان کی دھمکیوںکے باوجود پاکستان نہ چھوڑنے کافیصلہ کرلیا‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے والے نہیں، میدان میں رہ کر مقابلہ کرنے والے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مختلف سکیورٹی اداروںکی طرف سے پرویز مشرف کو بارہاجان کولاحق خطرات سے آگاہ کیا جا چکا ہے، گزشتہ دنوں پہلے ان کے فارم ہاﺅس کے قریب سے بارودی مواد والی گاڑی پکڑنے جانے اور بعد ازاں رہائش گاہ پر اچانک گولی چلنے کے واقعات بھی سابق صدر کے سامنے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کو دبئی جانے پرقائل کرنے کیلئے ان کے قریبی دوستوںکی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔دوستوں کے ذریعے جنرل (ر) پرویزمشرف کو یقین دہانی کرائی گئی کہ ہے اگروہ ملک چھوڑنے پر آمادہ ہوں تو ان کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے ہٹایا جا سکتا ہے مگر وہ ملک چھوڑنے کو تیار نہیں۔