کبھی صحافت ایک مشن اور آدرش تھی۔ اب تجارت اور پیشہ بن گئی ہے۔ تجارت میں ہر دم صرف نفع پر نظر رہتی ہے۔ لفظ پیشے کے کچھ اور بھی لوازمات بیان کئے جاتے ہیں۔ انشاءجی اٹھو اب کوچ کرو، والے گلوکار استاد امانت علی خاں نے لاہور کے ٹی ہاﺅس میں قتیل شفائی کوتلے کی کڑھائی والا خاصا شوخ سا کُھسہ پہنے دیکھا تو کہے بغیر نہ رہ سکے ”سرکار کیا آپ نے اپنے پاﺅں کو پیشے بٹھا رکھا ہے“۔ اب کیا ان اخبارات کے نام لینا بھی ضروری ہے جن میں شوخ بھرنے کے لئے تصویری مواد کی مقدار خبروں اور مضامین سے قدرے زیادہ ہو۔ یہ اخبارات پڑھنے کی بجائے دیکھنے کی چیز دکھائی دیتے ہیں۔ نوائے وقت اخبار ایک مشن کے طور پر قرار داد پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوا اور ابھی تک اپنے اس مشن کو بھولا نہیں۔ نظامی خاندان کا قصہ کہانی عجب ہے۔ بڑے نظامی صاحب مارشل لاءکے حبس میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گئے۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مارشل لاءکا زمانہ تھا۔ آغا شورش کاشمیری نے روایت کیا کہ انہوں نے اس دن رات گئے حمید نظامی کے ساتھ ٹمپل روڈ سے ہائیکورٹ تک فٹ پاتھ پر کئی پھیرے کئے ان پھیروں کے دوران حمید نظامی کی زبان سے یہ تلخ فقرہ نکلا ”میں اس سڑک پر پھرتا ہوا اپنے آپ کو اچھا محسوس نہیں کر رہا ہوں۔ بجلی کے ان کھبموں سے لے کر ہائیکورٹ کی برجیاں تک مجھ پر ہنستی ہیں“۔ اس شدت احساس میں یہ جمہوریت کے عاشق زار اور کتنے دن زندہ رہ سکتا تھا۔ اس واقعہ کے بعد وہ بمشکل ایک آدھ روز ہی اور جیے۔ اب نواے وقت کی ادارت جواں سال مجید نظامی کے کندھوں پر تھی اور حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنا نوائے وقت کا شعار تو تھا ہی۔ بہادر مجید نظامی کی پہلی مڈبھیڑ جنرل ایوب خاں سے ہوئی۔ ایک رسمی سی ملاقات میں جنرل ایوب خاں نے مدیران جرائد سے کہا آپ کو شرم آنی چاہئے آپ ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں۔ اس پر مجید نظامی اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ”حضور! شرم کس بات کی؟ میں جب بھی اپنے گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔“ پھر جنرل یحییٰ خان کا عہد آتا ہے۔ جب اس ملک کو دولخت کیا گیا۔ مجید نظامی کی زندگی کی رفتار اور گفتار کا چلن وہی تھا۔ جابر سلطانوں کے سامنے کلمہ حق کہہ گزرنے کا۔ انہوں نے اس عہد میں ایک بھری محفل میں چےف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں کو یہ باور کروا دیا کہ مارشل لاءنہ تو کوئی قانون ہوتا ہے اور نہ ہی مارشل لاءکورٹ کوئی عدالت۔ جنرل ضیاءالحق کے عہد میں ایک عجب تماشا ہوا، ایک مرتبہ نوائے وقت نے ضیا¿الحق سے انٹرویو کا وقت مانگا تو وہ کہنے لگے شرط یہ ہے کہ مجید نظامی خود تشرےف لائےں۔ شرط پوری کر دی گئی انٹرویو ہوتا رہا۔ ضیاءالحق مجید نظامی کی طرف متوجہ ہو کر بولے کہ آپ نے تو کوئی سوال کیا ہی نہیں؟ مجید نظامی نے جواب دیا کہ یہ شرط نہیں تھی کہ میں کچھ پوچھوں گا بھی۔ ضیاءالحق کہنے لگے نہیں آپ کوئی سوال ضرور کیجئے اس پر مجید نظامی نے بڑی سادگی سے پوچھا ”ساڈی جان کدوں چھڈوں گے۔“ مجید نظامی کا کلمہ حق کچھ فوجی حکمرانوں کے لئے ہی خاص نہیں۔ بھاری مینڈیٹ والوں کا عہد تھا۔ ایٹمی دھماکے سلسلے میں بلائی گئی ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں انہوں نے نواز شرےف کو بڑے دھڑلے سے کہہ دیا تھا کہ اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔ اور پھر پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ ایک تقریب میں جب میاں نواز شرےف کے لئے قائداعظم ثانی کے نعرے لگے تو جناب نظامی چپ نہ رہ سکے۔ اپنی باری پر بولے ”یہ قائداعظم ثانی کیسے ہو گئے؟ یہ تو تحریک استقلال سے مسلم لےگ میں آئے ہیں۔“ پھر روشن خیال حاکموں کے عہد کی داستان بھی سُن لیں۔ نائن الیون کے بعد صدر پرویز مشرف نے قومی اخبارات کے ایڈیٹرز کو بریفنگ کے لئے بلایا۔ مجید نظامی کہنے لگے کہ ”آپ نے بش نہیں پاﺅل کی ایک کال پر سرنڈر کر دیا ہے۔“ بات خاصی تلخ تھی، اپنا غصہ دباتے ہوئے صدر پرویز مشرف مجید نظامی سے پوچھنے لگے اس موقعہ پر اگر آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ مجید نظامی نے جواب دیا کہ ”میں کیوں ہوتا میں تو اپنا کام کر رہا ہوں۔ پھر اگر آپ بھی اپنا کام کر رہے ہوتے تو آپ کو یہ مشکل پیش نہ آتی‘ سیاستدانوں کا کام سیاستدان ہی جانیں۔“ دونوں نظامی بھائیوں کا مزاج اور ظرف کتنا ملتا جلتا ہے۔ جب خود حضرت قائداعظمؒ نے حمید نظامی کو مسلم لےگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی میں لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو حمید نظامی نے انکار کر دیا۔ وہ اپنے قائد سے کہنے لگے مجھے مجلس عاملہ کی رکنیت کی بجائے آپ کی شفقت درکار ہے اور یہ بحمدللہ مجھے حاصل بھی ہے حضرت قائداعظمؒ حمید نظامی کے جواب پر ناراض ہونے کی بجائے بڑے خوش ہوئے۔ ان دنوں بڑے بڑے مسلم لےگی مسلم لےگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کی رکنیت کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ پھر یوں بھی ہوا کہ جب رفیق تارڑ کو صدر بنایا گیا تو ان دنوں نواز شرےف اپنے اباجی کے ساتھ مجید نظامی کے پاس آئے اور انہیں پاکستان کی صدارت کی آفر کی۔ مجید نظامی نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ میں سوچتا ہوں کہ پا کستان کھپے، پاکستان نہ کھپے، کے شور و غوغا میں یہ جواں ہمت، بوڑھا، بہادر اخبار نویس کیا یکسوئی سے اپنے نظریہ پاکستان کی آبپاری میں مگن ہے۔ ان کا آبائی گھر سانگلہ ہل شیخوپورہ میں ہندوﺅں کے محلے میں تھا۔ ان کے گھر کے چاروں طرف ہندوﺅں کے ہی گھر تھے۔ محلے میں شاید یہ مسلمانوں کا اکیلا گھر تھا۔ ان کے گھر ہڈیوں کے بغیر گوشت آتا تھا۔ تاکہ ہڈیاں باہر گلے کوچے میں پھینکنے کی نوبت نہ آئے۔ ہڈی والا گوشت گھر نہ لانے کی وجہ ہندوﺅں کے مذہب اور رسم و رواج کا احترام تھا یا ایک اکیلے مسلمان گھرانے کی بے بسی۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا اب قیام پاکستان سے پہلے ہڈی کے بغیر گوشت لانے والے خاندان کا مجید نظامی پاکستان کے بے لگام حکمرانوں کے لئے کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے۔
پس تحریر: ویسے میرے گوجرانوالہ کے لوگوں کو گوبھی اور کچنار کے پھول بھاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے خواجہ شمائل احمد کمشنر صاحب بہادر نے میرا شہر موسمی پھولوں سے بھر دیا ہے۔ اک دل جلا کہنے لگا کاش ان چند روزہ پودوں کی بجائے درخت اگائے جاتے، یہ پروان چڑھتے تو کچھ آلودگی اور آکسیجن کا مسئلہ حل ہوتا۔ پھر ان کے سائے میں گاڑی بھی پارک ہو سکتی تھی۔ اب ہم شہر بھر میں اپنی گاڑی پارک کرنے کےلئے جگہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ پھر یہ ہر چھ ماہ بعد اخراجات کا معاملہ؟ ہم بولے بھئی یہ کس کی ذاتی جیب نہیں جو اخراجات تکلیف دہ ہوں۔ سرکار کے معاملات ہیں۔ خرچ اخراجات ہونگے تو کچھ بات بنے گی۔
”کباب میں ہڈی“
Apr 28, 2014