محبت کو محبت ہی جنم دیتی ہے۔ دلوں کے تالوں کا زنگ بھی محبت ہی کی قوت سے دور ہوتا ہے۔ یہی محبت انسان کو انسان آشنا کرتی ہے۔ معاشروں میں اخوت کا چلن بھی اسی محبت کا اعجاز خفی ہے۔ اور سلطنتوں کا وقار بھی اسی محبت کے علم بلند سے پائیدار ہوتا ہے۔ صوفیا کی کوششوں سے چمن اسلام میں رواداری کے گلاب ہر موسم ہی میں کھلتے ہیں۔ یہاں شفقت والفت کی چنباونسترن کی خوشبو ہر علاقے میں دلوں کو مسرور و شاداب رکھتی ہے۔ جب کبھی بھی نفرتوں کے الاﺅ بھڑکتے ہیں تو صوفیا کی انسان نوازی کے ترانے دکھی انسانیت کو ماں کی لوری کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ آج پاکستان کا ہر خطہ اور طبقہ نفرتوں کے الاﺅ کی زد میں ہے۔ کوئی اٹھے اور سچل سرمستؒ اور شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی طرح پیار بھری بانسری میں پیار کا جادو بھرا پیغام بھر دے اور یہی ہر پاکستانی الاپے۔ یوں تو ہر خطے کا صوفی زندگی کو سوزوگداز کے پیغام سے آشنا کرتا ہے اور ہر مخلوق کو خدا کا کنبہ جانتا ہے۔ خدا کے پیار کی چھتری میں مخلوق کو سایہ زندگی فراہم کرتا ہے اور خود جلتا ہے۔ اغیار کی بینائی کا سامان سکون فراہم کرتا ہے لیکن سندھ کے صوفیا کرام کی ایک بات اور ایک ادا سب سے جداگانہ ہے وہ یہ کہ یہ صوفیا کرام محبت کو پھیلاتے نہیں ہیں۔ یہ محبت کو کاشت کرتے ہیں۔ دلوں کی زمین پر اور اخلاق کے کھیتوں میں اور دلسوزی سے پیار کے آنسوﺅں کی بارش کا اہتمام کرتے ہوئے اس زمین محبت کی آبیاری کرتے ہیں۔
سندھ کا ہر باشندہ عاجزی کا مرقع بنا ہوا اپنے ہر مہمان کو دست بستہ خوش آمدید کہتا ہے۔ اسی لئے تو کراچی ایک چھوٹا پاکستان بنا ہوا ہے۔ آپ سندھ کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں تو آپ کو سائیں کا کلمہ خوش آمدید احساس عزت عطا کرے گا۔ سندھ کا پیار اعتبار کو باوقار کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ کی محبت آفریں فضاﺅں میں پاکستان کے احوال حاضرہ پر غور کرنے کا موقع میسر آیا تو احساس ہوا کہ ہم غلط فہمیوں اور غلط اندازوں کو نجانے کیوں اپنی بقراطیت کا سامان سمجھتے ہیں اور حقائق کو تلخیوں کے غلط زاویوں میں رکھ کر تعصب اور فکری جہالت کے تلخ نتائج کیوں حاصل کرتے ہیں۔سندھ کے محروم عوام کے نمائندہ سیاستدانوں سے ملاقات کا موقعہ میسر آیا تو احساس ہوا کہ ہم دولت احساس سے محروم ہیں۔ جام عبدالفتاح ڈاکٹر قادر مگسی کی پارٹی کے نائب صدر ہیں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے عوام کی عمومی محرمیوں کا ذکر کیا۔ جام عبدالفتاح ایک مضبوط معاشی لیڈر ہے لیکن اس شخص نے اپنے جان و مال کو برائے عوام وقف کیا ہوا ہے۔ خانقاہ بھرچونڈی شریف میں اسے ایک سادہ لوح عوامی خادم کی صورت میں دیکھا۔ جام صاحب اپنے پٹرول پمپ پر صبح سے لے کر رات گئے تک اس لئے بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی سائل آئے تو وہ اس کی مدد کو حاضر رہیں۔ انہوں نے ہاریوں اور مزدوروں کے لئے اپنی صلاحیتیں اور مال وقف کیا ہوا ہے۔ وہ مقامی لوگوں کے حقوق کی عملاً وکالت کرتے ہیں تو سرمایہ داروں اور وڈیروں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی اور یوں ایسے خدام عوام قومی سیاست کے دھارے میں شامل نہیں ہو سکتے۔ اسی سبب سے مقامی باشندوں کے مسائل قومی سطح پر اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے اور سیاست قومی ومقامی حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ مقامی باشندوں کے حقوق کو اٹھانے والوں کو کافی ناخوشگوار مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ اس کے علاوہ ایک نفسیاتی مگر غیر منصفانہ رویہ یہ ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے لوگ اپنے اعزاراقارب کو اپنی تقویت کے لئے اعلی مناصب پر فائز کرتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ذات برادری کے اثرات اعلیٰ تعلیم کے باوجود بھی انمٹ دھبوں کی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ اور یہ قبیلہ پرستی تو بسا اوقات قوم و ملت کے حاکم اعلی کی خواہش پر ہوا کرتی ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے پاکستانیوں کو یہ شکایت عام ہے کہ ہم سب پاکستانی ہیں لیکن قبیلہ پرستی کا شکار ہیں۔
ان شکایات کا ازالہ ہم سب پر واجب ہے تاکہ ہر پاکستانی اپنے وطن کو ہی سمجھے اور مرنا جینا پاکستان ہی کے لئے ہو۔ تب پاکستان مضبوط ہو گا۔ اسلام کا قلعہ ناقابل تسخیر ہو گا مگر شرط یہ ہے کہ قلعے کی چاروں فصیلیں بہت دھیان اور اہتمام سے مضبوط ہوں۔ جام عبدالفتاح سے یہ بات سن کر حیرت افزا خوشی ہوئی کہ سندھیوں نے دین صوفیا کرام سے سیکھا ہے اور تحریک پاکستان میں اول قدم بھی سندھی صوفیا اور رہنماﺅں نے اٹھایا تھا۔ اس لئے ہماری رگوں میں اسلام اور پاکستان کی محبت کا خون دوڑتا ہے۔ خانقاہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین میاں عبدالخالق کے جواں سال تعلیم یافتہ صاحبزادہ عبدالمالک الازہری نے کہا کہ پاکستان پر نظری بحثیں ترک کر دی جائیں اور خدمت عوام کو اتنا عام کردیا جائے کہ ہر شخص پاکستان کو اپنی اول آخر پناہ گاہ سمجھے۔ نوجوان عبدالمالک کے گرد ایسے متحرک دوستوں کا حلقہ ہمہ وقت اصلاح معاشرہ اور سماجی خدمت کیلئے حاضر باش ہوتا ہے۔ ان میں ایک اہم نام اینگرو فیکٹری کے ایک بہت ذمہ دار افسر جناب انصاری ہیں۔ جو اپنے آپ کو خیرواصلاح کے کام کے لئے وقف کئے ہوئے۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو کے پروفیسر آف ایمریطس ڈاکٹر یعقوب ایک بین الاقومی سکالر ہیں۔ انہوں نے تعلیم و تدریس کے حوالے سے اپنی خدمات بھی سندھ کے پسماندہ علاقوں کے لئے وقف کر دیں ہیں۔ ان تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بھی خانقاہ بھرچونڈی شریف ہی ہے۔ کراچی کے ایک ممتاز ماہر تعلیم اور محقق مفتی جان نعیمی بھی سندھ کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم و تربیت کے حوالے سے نہایت اعلی درجے کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سکھر کے ایک جواں فکر متحرک، روشن عمل عالم دین مفتی محمد ابراہیم اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہیں۔ ان کی مجاہدانہ تڑپ صوبہ سندھ کو اپنے فیضان سے نواز رہی ہے۔
قارئین اہل دانش اور اہل قلم کا یہ اہم ترین فریضہ ہے کہ چاروں صوبوں میں محبت پاکستان تقسیم کرنے کے لئے الفت وعزت کا ماحول پروان چڑھائیں....
ان کا جو کام ہے وہ اصل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے