یا اللہ خیر

Apr 28, 2014

امیر نواز نیازی

ہمارا تعلق بنیادی طور پر ایک گاﺅں سے ہے اور ہم جانتے ہیں۔ کہ گاﺅں والوں کی معیشت اور روزگار کا انحصار اور دارومدار چار و نا چار زیادہ تر زراعت اور زرعی پیداوار پر ہی ہوتا ہے۔ تو ہم نے یہاں یہ بھی دیکھ رکھا ہے کہ بارشیں جہاں ان لوگوں اور ان کے کھیتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کا نزول سمجھا جاتا ہے۔ وہاں جب کبھی آسمان پر کڑکتی بجلیاں اور امڈتے کالے بادل دیکھتے ہیں تو ان کی زبان سے بے اختیار نکلتا ہے ” یا اللہ خیر“ کہ انہیں یہاں یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ ایسے کچھ آثار کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوا کرتے ہیں جو آناً فاناً ان کے کھیتوں، کھلیانوں کو تباہ برباد کر کے رکھ دیتے ہیں پاکستان جو بدقسمتی سے ان دنوں اپنی تاریخ کے بدترین حالات سے دو چار ہے اور معاملات کسی طور قابو میں آتے نظر نہیں آ رہے بلکہ یہ سلجھنے کے بجائے الجھتے جا رہے ہیں۔ کو طرح طرح کے وسوسوں اور اندیشوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ تو ایسے میں آگے آنے والے دنوں میں امتحانات کے افق پر امنڈتے کالے بادلوں اور کڑکتی بجلیوں سنائی دینے لگتی ہے تو لامحالہ ہمارے دل سے یہ آواز نکلتی ہے یا اللہ خیر۔ بھارت جو پاکستان کا اس نسبت سے جڑواں بھائی ہے کہ ان دونوں نے ایک ہی ماں ہندوستان کی کوکھ سے جنم لیا لیکن افسوس کہ بھارت اسی جنم دن سے ہی پاکستان کا بیری بنا ہوا ہے۔ بلکہ اس کے وجود تک کے درپے ہے۔ اور تب سے اب تک پاکستان کو زک پہنچانے کا ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور آج یہ جو پاکستان بھر میں تخریب کاریوں اور دہشت گردیوں کی تباہیوں اور بربادیوں کا حشر برپا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کے پیچھے بھارت اور اس کے خواریوںکا ہی ہاتھ ہے اور وہ ان شر پسندوں کی دامے درمے اور سخنے ہر طرح کی مدد کر رہے ہیں اور یہ جو پچھلے کئی سالوں سے پاکستان بھر میں تحریک طالبان کے نام پر یورش با شورش جاری ہے یہ بھی بھارت اور اس کے حواریوں کی ہی مرہون منت ہے کہ ان پاکستان دشمنوں نے کچھ راہ گم گشتہ پاکستانیوں کو اپنے دام فریب میں لے رکھا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ انہیں مالی امداد کے علاوہ وافر مقدار میں اسلحہ اور فنی تربیت مہیا کر رہے ہیں اس لئے تو ہم اس تحریک طالبان کو تحریک ہندوستان ہی سمجھتے ہیں تو یہی وجہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان کی طالبان کے ساتھ ہونے والے حالیہ مذاکرات کی بیل منڈیر چڑھتے نظر نہیں آ رہی کہ یہ پاکستان دشمن قوتیں اپنی تمام تر شر انگزیوں کے ساتھ ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ مزید برآں آج کل جو بھارت میں پارلیمانی انتخابات کا ہنگامہ برپا ہے اس میں پاکستان دشمنی کے زور پر ہی ہر طر ف سے انتخابات جیتنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور پاکستان کے خلاف طرح طرح کا زہر اگلا جا رہا ہے اور اس سلسلہ میں بھارتی جنتا پارٹی نے تو پاکستان دشمنی کی حد ہی کر دی ہے کہ اس نے ان انتخابات میں سابق وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی کو بھارت کے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر کھڑا کر رکھا ہے جو نہ صرف گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہے وہ مسلم کشی کے علاوہ پاکستان دشمنی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اور اسی ایجنڈے اور پراپیگنڈے پر وہ یہ انتخابات جیتتے نظر آ رہا ہے تو آپ ہی بتائےے، بھارت کے ایسے وزیر اعظم سے پاکستان کو فکر خیر کی توقع رکھ سکتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں بھی انتخابات جاری ہیں۔ بلکہ ہو چکے ہیں جن میں عبداللہ عبداللہ کی بطور امیدوار کے طور پر کامیابی نمایاں نظر آ رہی ہے۔ تو یہ بھی آپ جانتے ہونگے۔ کہ یہ ڈبل عبداللہ کس حد تک پاکستان کا خیرخواہ ہے۔ تو یہ بھی سوچئے‘ کہ جب مودی اور عبداللہ مل بیٹھیں گے تو کیا کیا گل کھلائیں گے خاص کر اب جب کہ امریکہ‘ افغانستان سے جا رہا ہے اور بھارت وہاں آرہا ہے اور یہ بات یہاں تک محدود نہیں بھارت کے پڑوس میں واقع بنگلہ دیش جو کبھی مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا اب مکمل طور پر بھارت کے چنگل میں ہے اور وہاں حسینہ واجد کی حکمرانی ہے جو پاکستان سے اس قدر بغض رکھتی ہےں۔ کہ انہیں یہ بھی گوارہ نہیں کہ ان کے عوام کھیل کے میدان میں پاکستانی کھلاڑیوں کی حمایت کریں بلکہ حال ہی میں کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران ڈھاکہ میں حسینہ واجد کی طرف سے بنگلہ دیشیوں کا میدان میں پاکستانی جھنڈا لہرانا بھی قابل گردن زنی قرار پایا۔ اور اب بھارت‘ افغانستان اور بنگلہ دیش کے یہ تین حکمران اور ہمارے مہربان اکھٹے ہوں گے کیا کیا سازشیں انجام پائیں گی۔ اب آگے چلئے ہماری مغربی سرحد پر ہمارا برادر ملک ایران واقع ہے اور یہ وہ ملک ہے جس سے پاکستان کے وجود میں آنے پر دنیا بھر میں سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور پھر 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں ایران نے جو پاکستان کی مدد کی وہ ہم آج تک نہیں بھول پائے۔ لیکن افسوس ہم نے اپنی حماقتوں اور غلط پالیسیوں کی بنا پر ایران کو اس قدر ناراض کر دیا کہ آج وہ ہمارا دشمن نہیں تو دوست بھی نہیں رہا۔ تو ایسے میں ہم جب کہ مرد کی دوسری شادی کے لئے بیوی کی رضا مندی ضروری ہے یا نہیں جیسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں یا فوج اور حکومت کوایک دوسرے کے خلاف صاف آرا کرنے کے مشن میں مشغول ہیں تو ہمارے منہ سے ”یا اللہ خیر“ کی دعا نہ نکلے تو کیا نکلے۔

مزیدخبریں