چودھری شُجاعت - امِیتابھ بچن ”صُوفی کانفرنس؟“

خبر یہ ہے کہ ”معروف بھارتی اداکار امِیتابھ بچن نے سابق وزیرِاعظم چودھری شُجاعت حسین کی دَورہ¿ پاکستان کی دعوت قبول کر لی ہے۔ شری امِیتابھ بچن نے چودھری صاحب نے نام اپنے خط میں لکِھا ہے کہ ”میری والدہ لائل پور ( فیصل آباد) میں پیدا ہُوئی تھیں اور انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی تھی۔“ گذشتہ ماہ بھارت کے ایک مسلمان بھارتی اداکار رضا مراد پاکستان کے دَورے پر آئے تھے تو چودھری شجاعت صاحب نے اُن کے ہاتھ دعوت نامہ بھجوایا تھا جِسے قبول کرتے ہُوئے شری امِیتابھ نے بھی خط لکِھ کر ہی جواب دِیا ہے۔ کوئی پُوچھے کہ شری امِیتابھ بچن اور چودھری شجاعت میں قدرِ مُشترک کیا ہے؟ امِیتابھ جی الہ آبادی ہیں اور اُردو سپیکنگ اور چودھری صاحب گجراتی اور پنجابی۔ امِیتابھ جی کبھی کبھی اپنے فیملی فرینڈ راہوال گاندھی کی حمایت میں سیاست کرتے ہیں لیکن چودھری صاحب کُل وقتی سیاستدان ہیں۔ چودھری صاحب فلمی اداکار کبھی نہیں رہے، اُن کی سیاست کو اُن کے مخالفین ادا کاری ضرور سمجھ لیتے ہیں لیکن چودھری صاحب (بقول اُن کے) عبادت سمجھ کر سیاست کرتے ہیں۔
امِیتابھ بچن کے والد شری ہری ونش بچن شاعر تھے۔ ”ہری ونش“ کا مطلب ہے ہری (بھگوان کرشن کا) خاندان یعنی ”یادو“ قبِیلہ اور ”بچن“ کے معنے ” قول“ کے ہیں یعنی ”ہری کا قول“۔ حضرت نظام اُلدّین اولیاؒ کے مُریدِ خاص حضرت امیر خُسروؒ نے کئی راگ ایجاد کئے تھے، اُن میں سے ایک راگ کا نام بھی ”قول“ ہے۔ اِس راگ میں قوال حضرات پندو نصائح اور بزرگوں کے حقّانی اشعار قوالی کی شکل میں گاتے ہیں۔ ایک فلم میں امِیتابھ بچن جی نے بھی قوالی گائی تھی۔ ممکن ہے کہ چودھری شجاعت صاحب نے وہ قوالی دیکھی اور سُنی ہو اور انہوں نے اُسی وقت سے امِیتابھ جی کو دورہ¿ پاکستان کا دعوت نامہ بھجوانے کا ارادہ کر لِیا ہو اور جب رضا مراد صاحب پاکستان کے دورے پر آئے تو چودھری صاحب کو اپنی ”مُراد“ (آشا) پُوری ہوتی نظر آئی۔ قصّہ ”ہِیر رانجھا“ میں رانجھا جوگی نے ہِیر کی نند ”سہتی“ سے کہا تھا کہ
”ہِیر نُوں فقِیر نال ٹور دے
نی سہتیے مُراد پانویں گی“
لیکن ہیر رانجھا کی کہانی گجرات میں نہیں، ضلع جھنگ میں برپا ہُوئی تھی۔ گجرات تو ”سوہنی مہنیوال“ کے عِشق کی داستان کی وجہ سے مشہور ہے۔ بلخ بخارا کا شہزادہ عزّت بیگ گجرات کی سوہنی کمارن کے عِشق میں ”مہینوال“ (بھینسیں چَرانے والا) کہلایا۔ اُس سے پہلے وہ ہر روز سوہنی سے مُلاقات کے لئے سوہنی کے والد کی دکان سے مہنگے داموں مٹی کے برتن خریدتا اور سستے داموں فُروخت کر دِیا کرتا تھا۔ دراصل اُن دِنوں آئی ایم ایف کا وجود نہیں تھا وگرنہ شہزادہ عزّت بیگ تاحیات سوہنی کے والد سے برتن خریدتے رہنے کے لئے اپنی سلطنت گروی رکِھ کر باعزّت عِشق کرتا۔ ”خُدائے سخن“ مِیر تقی مِیر بعد میں ہُوئے جنہوں نے کہا تھا کہ
”اِس عاشِقی میں عزّتِ سادات بھی گئی“
شری امِیتابھ بچن اور چودھری شجاعت حسین کی دوستی ابھی خط و کتابت تک محدود ہے اور یقیناً دونوں صاحبان کا مقصد یہی ہو گا کہ وہ اپنی اپنی جگہ دونوں ملکوں میں ”امن کی آشا“ کو جگائے رکھیں جب تک اِس کے مخالف سو نہ جائیں۔ مِیر تقی مِیر نے ایک دوسرے مقام پر کہا تھا کہ
سرہانے مِیر کے آہستہ بولو!
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے“
لیکن یہاں صُورت یہ ہے کہ ”امن کی آشا“ کے مائی باپ اور دوسرے رشتہ دار زور زور سے بول رہے ہیں اور اُن کی بولتی بند کرنے والے آشا اور اُس کے پرِیوار (خاندان) کو مار بھگانے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ ہمارے چودھری صاحب کا نام ”شجاعت حسین“ بہت ہی خوبصورت ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ
”سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شُجاعت کا
لِیا جائے گا تُجھ سے کام دُنیا کی امامت کا“
چودھری شجاعت حسین نے ماضی میں یہ سارے سبق یقیناً پڑھے ہوں گے جِس کی وجہ سے انہیں مختصر مُدت کے لئے وزیرِاعظم کی حیثیت سے پاکستان کی امامت بھی مِلی۔ چودھری صاحب صدر جنرل پرویز مُشرّف کا ”خُطبہ اور کلمہ“ بہت اچھا پڑھتے تھے۔ اُستاد رشک نے بھی اپنے ممدُوح کے لئے یہی کہا تھا
”تیری باتیں خُدا کی باتیں ہیں
کلمہ¿ حقّ میں کچھ کلام نہیں“
”امِیتابھ“ حضرت گوتم بُدھ کا صِفاتی نام ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے سِکھوں کے پہلے گرو حضرت بابا نانک کے نام اپنی ایک نظم میں سب سے پہلے حضرت گوتم بدّھ کو خراجِ عقِیدت پیش کرتے ہُوئے کہا کہ
”قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی“
چودھری شجاعت حسین کے والدِ محترم چودھری ظہور الٰہی کا نام بھی خُوبصورت ہے۔ اُن کی سیاست کی بُنیاد مہمان نوازی تھی۔ کسی سِکھّ مُفکر کا قول ہے کہ ”دیگ چلے یا تیغ“ یعنی لوگوں کو کھانا کھِلا کر یا انہیں تلوار سے اپنا مُطیع بنایا جا سکتا ہے۔“ چودھری ظہور الٰہی (مرحوم) نے سِکھ مُفکر کا یہ مقولہ سِکھوں پر ہی آزمایا۔ اُن کی مہمان نوازی کر کے مشرقی پنجاب کے سِکھوں سے دوستی کا درخت چودھری ظہور الٰہی نے لگایا تھا جِس کی آبیاری صدر ضیااُلحق نے کی۔ ”پڑھا لِکھا پنجاب“ کے وزیرِ اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے بھی کچھ دِن بھارتی پنجاب سے دوستی کی آشا رکھی لیکن دسمبر 2004 ءمیں ”عالمی پنجابی کانفرنس“ کے موقع پر پٹیالہ میں (اُن دِنوں) بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ نے جب ”سانجھا پنجاب“ کی بات کی تو چودھری پرویز الٰہی نے انہیں یہ کہہ کر ٹوک دِیا کہ ”زبان اور کلچر کی بنیاد پر سرحدیں ختم نہیں کی جا سکتیں۔ کئی مُسلمان مُلکوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے مِلتی ہیں۔ اُن کی زبان، کلچر اور مذہب بھی ایک ہے لیکن اُن کی سرحدین اپنی اپنی ہیں۔“
قائدِ اعظمؒ کا نام چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ کے نام کا حصّہ ہے۔ اِس لئے مَیں یہ شک نہیں کر سکتا کہ چودھری صاحب ”سانجھا پنجاب“ یا ”اکھنڈ بھارت“ کے حامی ہو گئے ہیں۔ صدر جنرل پرویز مُشرّف نے اپنے دَور میں چودھری صاحب کی چیئرمین شپ میں آل پاکستان صُوفی کونسل“ بنائی تھی اور وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا تھا کہ ”چودھری شجاعت حسین پاکستان کے سب سے بڑے صُوفی ہیں۔“ جناب شوکت عزیز کے اِس دعوے کو آج تک کسی بھی صُوفی نے چیلنج نہیں کِیا۔ اِس لئے ممکن ہے کہ چودھری صاحب نے پاکستان اور بھارت میں ایک ہی قِسم کے صُوفی ازم کو فروغ دینے کے لئے شری امِیتابھ بچن کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہو؟ جب ملاقات ہو تو اُسے ”چودھری شجاعت - امِیتابھ بچن ”صُوفی کانفرنس“ ہی کہا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...