کنٹونمنٹ بورڈ میں بلدیاتی انتخابات

فرخ سعید خواجہ
ملک میں بلدیاتی انتخابات کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا، ان انتخابات کو باقاعدہ کروائے جانے کی ضرورت سے ہر کوئی اتفاق کرتا رہا ہے لیکن بوجوہ ہمارے یہاں برسہا برس سے بلدیاتی انتخابات نہ ہو سکے ۔ سیاسی جماعتوں کی الیکشن کروانے کے لئے جدوجہد تو برسوں تک رنگ نہ لا سکی تاہم پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے اس سلسلے میں خاص دلچسپی لی اور جو لوگ اور ادارے الیکشن کروانے کے ذمہ دار تھے۔ انہیں مجبور کر دیا کہ وہ انتخابات کروائیں کنٹونمنٹ بورڈز اور یونین کونسلوں کے انتخابات کروانے کے لئے تاریخیں تک دے دی گئیں۔ لیکن ان کے انعقاد کے حوالے سے عوام میں پھر بھی شکوک و شبہات پائے جاتے رہے۔ تاہم 25 اپریل کو ملک کے چاروں صوبوں میں بیک وقت 42 کنٹونمنٹس بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کروا دئیے گئے۔ کنٹونمنٹس بورڈ کے انتخابات کا پہلا مرحلہ بخیر و خوبی مکمل ہو جانے کے بعد پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بھی لوگوں کو امید پیدا ہو گئی ہے۔
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں لاہور کینٹ کنٹونمنٹ بورڈ اور والٹن کنٹونمنٹ بورڈ دس دس وارڈوں میں کونسلروں کا انتخاب ہوا۔ لاہور کینٹ کنٹونمنٹ بورڈ کا زیادہ تر علاقہ پوش علاقوں پر مشتمل ہے جس میں بڑے گھر اور تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت ہے جبکہ والٹن کنٹونمنٹ بورڈ زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کی آبادیوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم دونوں کنٹونمنٹس کے انفرادی کونسلروں کی وارڈوں کے نتائج کی طرف جائیں پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ لاہور کینٹ کنٹونمنٹ بورڈ کی دس وارڈوں کے نتائج کیا ہیں جن میں مسلم لیگ ن، تحریک انصاف ، پیپلزپارٹی جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک کے امیدواروں سمیت آزاد امیدوار حصہ لے رہے تھے۔ حصہ لینے والی تمام جماعتوں کا عوامی مقبولیت کا اپنا اپنا دعویٰ تھا تاہم نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن نے 10 میں سے 6 وارڈوں کا الیکشن جیت لیا ہے اور تحریک انصاف کو یہاں صرف 4 وارڈوں میں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ افسوسناک امر یہ کہ پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی ، پاکستان عوامی تحریک اور آزاد امیدوار ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکے۔
والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی 10 وارڈوں کے بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن نے کلین سویپ کرتے ہوئے 9 وارڈوں میں الیکشن جیت لیا ہے جبکہ تحریک انصاف صرف 1 وارڈ میں کامیاب ہو سکی۔ والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک سمیت آزاد امیدواروں کا چراغ نہ جل سکا۔
صوبائی دارالحکومت کے دونوں کنٹونمنٹس بورڈ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 125 میں آتے ہیں جہاں سے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں ۔ جبکہ اس کے ذیلی حلقوں میں پی پی 155 اور پی پی 156 میں میاں نصیر احمد اور چودھری یاسین سوہل رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 125 میں شامل آبادیوں کا 80 فیصد حصہ ان دونوں کنٹونمنٹس بورڈ میں شامل تھا۔ این اے 125 کا شمار ان چار حلقوں میں ہوتا ہے جن کے نتائج کو متنازعہ بنا کر تحریک انصاف انہیں دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اب اس اہم حلقے کے نتائج تو کیا کھلیں گے 25 اپریل کے بلدیاتی انتخابات نے مقبولیت کی حقیقت کو عیاں کر کے تحریک انصاف کے کیس کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے 20 میں سے 15 نشستیں جیت کر 5 وارڈوں میں جیتنے والی تحریک انصاف کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی شاندار کامیابی میں جہاں امیدواروں کے چناﺅ کے لئے خواجہ سعد رفیق اور ان کے دونوں ممبران پنجاب اسمبلی میاں نصیراحمد، چودھری یاسین سوہل میں مکمل ہم آہنگی کا دخل ہے وہاں مسلم لیگ (ن) نے درست امیدواروں کا انتخاب کر کے ثابت کیا ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے پارٹی کے باصلاحیت اور مخلص عہدیداروں و سیاسی کارکنوں کو ترجیح دی ہے۔ جس کا نتیجہ بالک واضح دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے انتخابی مہم میں مکمل ہم آہنگی رہی ۔ یہی وجہ تھی کہ انتخابی مہم کے دوران ہی مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی بہتر پوزیشن کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے امیدواروں کا انتخاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کی صوبائی قیادت لاہور قیادت اور کینٹ قیادت میں پیدا ہونے والے اختلافات اس کے امیدواروں کی ناکامی کا باعث بن گئے۔ این اے 125 سے تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر حامد خان ان انتخابات میں اپنی شخصیت کا جادو چلانے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ خواجہ سعد رفیق وفاقی وزیر ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم میں شامل نہیں ہو سکتے تھے لیکن ان کی سیاسی حکمت عملی اور اپنے امیدواروں کی ٹیم کو الیکشن لڑوانے کی تربیت کام آئی ۔ ان کے دست راست شیخ شاہد علی لاہور کینٹ کنٹونمنٹ بورڈ کے وارڈ نمبر 1 میں 1047 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر کارکن، مسلم لیگ ن لیبر ونگ پنجاب کے سینئر نائب صدر چودھری سجاد احمد 4116 ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ تمام 20 وارڈوں میں چودھری سجاد احمد کی اپنے مدمقابل امیدواروں سے لیڈ سب سے زیادہ ہے۔ والٹن کنٹونمنٹ وارڈ نمبر 6 سے چودھری سجاد احمد نے 4116 ووٹ لئے جبکہ ان کے قریبی حریف شاہد اقبال جو کہ مسلم لیگ ن ، ق اور مسلم لیگ ہم خیال میں رہ چکے ہیں۔ 1759 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے امیرداد رانا ساجد حسین 1650 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ خواجہ سعد رفیق کے ایک اور ساتھی سینئر مسلم لیگی کارکن قاری محمد حنیف والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی وارڈ نمبر 2 سے 2994 ووٹ لے کر جیت گئے جبکہ ان کے قریبی حریف تحریک انصاف کے ملک طاہر اعوان 2494 ووٹ حاصل کر سکے۔ مسلم لیگ (ن) کے دیگر کامیاب امیدواروں کی لیڈ بھی قابل ذکر ہے۔ اور اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو این اے 125 میں خاص بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...