محمد ریاض اختر
وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں بلوچستان کی اہمیت دو حوالوں سے مسلمہ رہی ہے ایک تو رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں سب سے پہلے بلدیاتی الیکشن ہوئے۔ دوسری اہمیت کا تعلق پرامن عوامی رائے سے ہے عام بلدیاتی چنا¶ کے بعد کنٹونمنٹ الیکشن بھی پرامن ہونے کا کریڈٹ صوبائی حکومت سے زیادہ لوگوں کو جاتا ہے جن کی دلچسپی اور شراکت سے یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوا۔ بلوچستان کے چار شہروں کوئٹہ‘ ژوب ‘ لورائی اور خضدارکے کنٹونمنٹ ایریا میں کامیاب امیدوار جشن کے دوران مبارکبادیں وصول کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے ایک شہر اڑماڑا میں الیکشن نہ ہو سکے کیونکہ ابھی اس کنٹونمنٹ کی حدود کا تعین کا مسئلہ درپیش ہے۔ غیر سرکاری نتائج حیران کن رہے مسلم لیگ ن اور میپ کو ایک ایک نشست ملی جبکہ اکثریت فاتحین آزاد امیدوار ہیں۔ دلچسپ بات جیتنے والوں کے ووٹ کی تعداد 20-15 اور 25 کی ہے اس کا مطلب ہے کہ پورے ملک کی نسبت بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں ٹرن آ¶ٹ انتہائی کم رہا۔ آزاد امیدواروں کی اکثریت کا وکٹری اسٹینڈ پر پہنچنا دراصل سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کیلئے لمحہ فکر ہے؟ حیران کن امر یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نے اس گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جو پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں دیکھنے کو ملی بلوچستان شرح خواندگی کے حساب میں بھی قابل ذکر پوزیشن پر نہیں لیکن اس صوبے نے مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے جس دلچسپی کا مظاہرہ کیا وہ قابل رشک ہے یقیناً مقامی حکومتوں کے سربراہوں کے مرحلے میں بھی آزاد امیدوار ہی سامنے آئیں گے ۔ بلوچستان کے سیاسی رہنماءسابق وفاقی وزیر امور کشمیر میر باز کیتھران کا کہنا تھاکہ صوبہ بلوچستان ہر دور میں نظر انداز رہا آج بھی وہاں صوبائی حکومت نظر نہیں آتی تاہم بلدیاتی انتخابات کے بعد کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں جس طرح لوگوں نے جوش و خروش سے حصہ لیا وہ پورے ملک کے لئے مثال ہے۔ پرامن ماحول میں انتخابات کا ہونا اور زیادہ خوش آئند امر ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کیوں دور رہی ؟ اس سوال پر میر باز کیتھران کا کہنا تھا کہ پی پی قیادت کو بھی اس حوالے سے پوچھنا پڑے گا۔ یادش بخیر ماہر اقتصادیات ‘ سیاسی دانشوروں اور سیاسی اکابرین نے جو کبھی بھی حکومت کا حصہ نہیں رہے گزشتہ 66-67 برس میں باربار حکومتوں کو یہ اہم نکتہ باور کراتے رہے ہیں کہ اُس وقت تک جمہوریت کے اصل فوائد اور ثمرات عوام کی دہلیز تک نہیں پہنچ پائیں گے جب تک یہاں بلدیاتی سطح انتخابات نہیں کرائے جاتے ۔ہر ترقی یافتہ جمہوری نظام میں بلدیات ( کمیونٹی سسٹم) پر بروقت انتخابات کرائے جاتے ہیں ۔ اٹھارہ سال کے بعدملک بھر کی کنٹونمٹس علاقوںمیں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت بلدیاتی انتخابات کراوائے گئے ہیں جس پر سیاسی قائدیں ، دانشوروں اور عام لوگوں نے اسے خو ش آئند قدم قرار دیا ہے۔ کراچی‘ پشاور‘ لاہور‘ کامرہ اور دیگر کنٹو نمنٹ ایریاز کی طرح بلو چستان میں بھی یہ انتخابات منعقد ہوئے بلو چستان کے بارے میں ہمیشہ لوگ متفکر اور پریشان رہتے ہیں مگر کوئٹہ کنٹونمنٹ میں وہاں کی مقامی پولیس اور فوجی حکام کی باہمی مشترکہ نگرانی میں نہایت پُرامن طور پر یہ انتخابات منعقد ہوئے صوبے کی معروضی صورتحال کی روشنی میں وہاںامیدوار آزاد کامیاب ہوئے ہیں ۔ بلوچستان میں عموماً علاقائی شخصیات کی بنیاد پر انتخابی وارڈز میں آزاد امیدوار کھڑے ہوئے تھے قارئین کو یاد ہوگا کہ ملک میں بلو چستان ہی وہ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تھے ۔مگر نجانے کن ’مصلحتوں ‘ کے تحت بلدیاتی اداروں کو تاحال اختیارات اور عوامی فلاح وبہبو د کویقینی بنانے کے لئے فنڈز مہیا کیوںنہیں کئے گئے۔ایک جاری وساری جمہوریت میں مرکزی حکومت کے اِس رویہ کو قابل ِ ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا اب جبکہ پورے ملک کی کنٹونمنٹ میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں تو حکومت ِ وقت کو کوئی دیر کیئے بغیر ہر جگہ کی کنٹونمنٹس اور بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے میں کوئی دیر نہیں کرنی چاہیے۔کنٹونمنٹ بورڈ میں مقامی حکومتوں کی عملداری ضروری ہے کہ یہاں معمولی معمولی کام کے لئے لوگوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے ایگزیکٹو آفیسر تک رسائی عام شہریوں کےلئے ممکن نہیں ۔