ملک میں سیاسی طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اس کا اندازہ وزیراعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب میں درد بھری داستان اور عوامی رابطہ مہم کی بھکلاہٹ سے صاف ظاہر ہورہا ہے اور پاکستان کی تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ایسے طوفان حکومت کیلئے ہمیشہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں، اس وقت عمران خان مسلم لیگ ن کیلئے سیاسی تھرڈ تو ہیںہی۔ لیکن حکومت عمران خان کے پیچھے ایمپائر سے زیادہ خوف زدہ ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے دوسری بار پانامہ لیکس پر قوم سے خطاب میں واضح کیا ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے اور نہ کسی کی گیدڑ بھبکیوں سے ڈرتے ہیں، یہ براہ راست عمران خان کو پیغام دینا نہیں تھا۔ نواز شریف کی حکومت ایسی مہم جوئی کے پیچھے اسٹبلیشمنٹ پر اشارہ کررہی ہے۔اسی لیے تو احتساب ہویا اپوزیشن کی تنقید ہو۔ جمہوریت کو ہی خطرے میں دیکھ رہی ہے۔مسلم لیگ ن اب حکومت میں ہے۔ اور اپوزیشن کے احتجاج کو حکومت گرانے کا منصوبہ اور ملک کی ترقی میں رکاوٹ کہہ رہی ہے۔ اور وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں فرمایا کہ ہم نے زرداری صاحب کی حکومت گرانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یہ ہی فرق ہے اپوزیشن پنجوں اور اقتدار کی کرسی کا، جب زرداری صاحب کی حکومت تھی تو عدلیہ بحالی تحریک سے لے کر میمو گیٹ سکینڈل تک اور سوئس اکاونٹس میں اربوں ڈالر واپس لانے تک کا قوم سے وعدہ یہی نواز شریف سڑکوں اور جلسوں میں کرتے رہے ہیں۔ تمہیں یادہو کہ نہ یاد ہو، ہمیں یا د ہے ذرا ذرا ۔زرداری کی حکومت کے وقت عدلیہ بحالی تحریک میں نواز شریف تیر برساتے کہتے تھے کہ ـ" زرداری کی چابی والی عدلیہ اور پارلیمنٹ نہیں چلنے دیں گے"۔جب سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ تھا اس وقت نواز شریف نے فرمایا کہ گیلانی نے عہدہ نہ چھوڑا تو تحریک چلائینگے"۔
شہباز شریف نے ریلی سے خطاب میں کہا ـ"کہ زرداری استعفیٰ دیں ورنہ کہیں پناہ نہیں ملے گی"۔ اور بھی بہت کچھ کہا تھا جس کو لکھنا مناسب نہیں ہوگا اب جب پی ٹی آئی خاص کر اور باقی اپوزیشن جماعتیں تنقید کررہی ہیں تو وزیراعظم صاحب ماضی کو بھول گئے ہیں۔ اس تنقید کو بھی غلط قرار دے رہے ہیں۔ یہ اپوزیشن کا دبائو ہی تو ہے جو نواز شریف نے پہلے اعلان کردہ کمیشن کے بعد اپوزیشن کے مطالبے کے تحت چیف جسٹس کو کمیشن بنانے کیلئے خط لکھا ہے ۔ اب جب اس کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر اپوزیشن کو اعتراض ہے تو اس اعتراض کو بھی سامنا کرنا ہی پڑے گا۔
وفاقی حکومت نے پانامہ لیکس پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھ ہے جس میں چیف جسٹس سے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی گئی ہے۔جس کمیشن کا پہلے اعلان کیا تھا اس کمیشن میں ٹی آر او مختلف تھے اب جو کمیشن بنا نے کیلئے چیف جسٹس کوخط لکھا گیا ہے اس کے ٹی آراو تبدیل کردیئے گئے ہیں ۔
اس خط میں لکھا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کی پانامہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود آف شور کمپنیوں، قرضوں کی معافی اور رقوم باہر بھجوانے کی تحقیقات کرے ۔ ٹرمز آف ریفرنسز کی پہلی شق کے مطابق مجوزہ جوڈیشل کمیشن تین افراد پر مشتمل ہوگا ، سیکشن دو کے تحت کمیشن پانامہ لیکس یا کسی اور ملک میں پاکستانی شہریوں اور پاکستانی نژاد افراد کی مبینہ آف شور کمپنیوں کا کھوج لگائے گا اور دیکھے گا۔ حکومت قیام پاکستان اور سب کا احتساب کرنا چاہ رہی ہے ،ظاہر ی بات ہے اس کا ایک مقصد انکوائری کے کو طول دینا ہے اور دوسرا یہ ہم تو ڈوبے گیصنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔مگر اس احتساب کی لہر کو کسی منطقی انجا م تک پہنچا یا گیا تو یہ سیاست کیلئے نیک شگون نہیں ہو گا۔