اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور نے پاکستان افغانستان تعلقات کے حوالے سے سفارشات کو حتمی شکل دیتے ہوئے حکومت کو تجویز دی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کا فقدان دور کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں، افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا جائے، پاکستان افغانستان بارڈر مینجمنٹ ایشو حل کیا جائے۔ مجلس قائمہ کا اجلاس ، مجلس کے صدر سردار اویس خان لغاری کی زیر صدارت ہوا جس میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ، ڈاکٹر شیریں مزاری، دانیال عزیز اور دیگر نے شرکت کی۔ دوران اجلاس شیریں مزاری اور اویس لغاری کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی۔ شیریں مزاری نے اویس لغاری کو کنفیوژ قرار دیا جس پر انہوں نے احتجاج کیا تاہم ساتھی ارکان کی مداخلت پر دونوں نے معذرت کر لی۔ مجلس قائمہ نے آفتاب شیرپاؤ کی صدارت میں بنائی گئی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کو حتمی شکل دی۔ آفتاب شیرپاؤ نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان افغانستان صورتحال تیزی سے بدل ہورہی ہے۔ 19 اپریل کے کابل میں حملے کے بعد صورتحال بدل گئی ہے۔ افغانستان میں امن و مفاہمت کے حوالے سے پاکستان، امریکہ، افغانستان اور چین پر مبنی چار ملکی رابطہ گروپ بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی کوششوں میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا۔ کمیٹی کی زیادہ تر سفارشات دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے ہیں۔ اقتصادی تعلقات کو بھی فروغ دینا ہو گا۔ شیریں مزاری نے بتایا کہ عالمی قوانین کے مطابق چونکہ افغانستان خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، اس لئے ہم اسے بندرگاہوں تک رسائی دینے کے پابند ہیں۔ افغانستان کو بھارت سے تجارت کیلئے زمینی راستہ دینے کے ہرگز پابند نہیں۔ شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان کو افغان امن عمل کی بھرپور حمایت جاری رکھنی چاہئے۔ اعتماد کا فقدان کم کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ افغان صحافیوں کو پاکستان میں تربیت فراہم کی جا سکتی ہے۔ اویس لغاری نے کہا کہ ہمیں لفظ ’’رفیوجیز‘‘ کی بھی تعریف واضح کرنا ہو گی جس پر فارن آفس کے نمائندے کی طرف سے بتایا گیا کہ پاکستان نے اس معاملہ پر بعض بین الاقوامی کنونشن کی توثیق نہیں کی۔ تاہم کمیٹی نے اس پر دفتر خارجہ کی وضاحت مسترد کرتے ہوئے دانیال عزیز کی کنوینئر شپ میں کمیٹی تشکیل دے دی جس میں شیریں مزاری، رانا افضل خان، نعیمہ کشور شامل ہیں جو ایک مہینے میں اپنی رپورٹ پیش کریگی۔