لاہور (معین اظہر سے) پنجاب میں بیورو کریسی دہشت گردی کی جنگ میں صوبے کی برآمدات، متاثرہ افراد کو امداد، فزیکل انفراسٹرکچر کو نقصان، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی، ٹیکس وصولی پر دہشت گردی کی جنگ کے اثرات اور دہشت گردی کنٹرول کرنے کے لئے اضافی اخراجات کی تفصیلی رپورٹ وفاقی حکومت کو فراہم نہیں کر سکی۔ وزارت خزانہ، بین الصوبائی رابطہ کی وزارت اور وزارت داخلہ متعدد خط جاری کر چکی ہے۔ بیوروکریسی نے اندازوں پر مبنی رپورٹ تیاری شروع کر دی ہے۔ حقیقت میں کیا نقصانات ہوئے پنجاب میں آج تک کوئی رپورٹ تیار نہیں کی گئی۔ فروری، مارچ اور اپریل میں وفاقی حکومت کی جانب سے چاروں صوبوں کو خط جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ وہ اپنے صوبے میں دہشت گردی کی جنگ کے اثرات، معیشت پر آنے والے اثرات کے بارے میں تفصیلی رپورٹ فراہم کریں، اس کے لئے چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریوں، چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اور چیف سیکرٹری فاٹا سے بھی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔ پنجاب میں ہوم ڈیپارٹمنٹ، پی اینڈ ڈی اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کو اس بارے میں تفصیلی رپورٹ تیار کر کے فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں جو معلوما ت مانگی گئی تھیں اس میں کہا گیا تھا کہ 2014-15 اور 2015-16 میں کتنے دہشت گردی کی وجہ معیشت پر کیا اثرات ہوئے جس پر ابھی تک تینوں محکموں کی طرف سے کوئی تفصیلی رپورٹ تیار نہیں کی جا سکی۔ محکمہ خزانہ اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اندازوں پر مبنی رپورٹ تیار کرکے وفاقی حکومت کو بھیجی جا رہی ہے۔ اس بارے میں وفاقی وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت ایک رپورٹ تیار کر رہی ہے جس میں ابتدائی اندازوں کے مطابق دہشت گردی کی جنگ میں گزشتہ 16 سال میں تقریباً 120 ارب ڈالر کا نقصان کا تخمینہ لگایا گیا۔ برآمدات کو 92 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ فزیکل انفراسٹرکچر کو مالی طور پر 0.50 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ غیرملکی سرمایہ کاری میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی کمی ہوئی، انڈسٹریل پروڈکشن میں تقریباً 0.02 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں نقصان تقریباً 5.2 ارب ڈالر کا تھا جو اب کم ہو کر 3.6 ارب ڈالر پر چلا گیا تاہم فوجی آپریشن سے نقصان کم ترین سطح پر آگیا۔