منیر نیازی نے کیا خوب کہا تھا کہ جب وہ ایک دریا کو پار کرتا ہے تو اس کے سامنے ایک اور دریا نمودار ہوجاتا ہے۔ انگریزی کا ایک محاورا ہے کہ اپنی منزل کی طرف راہ میں حائل ایک پہاڑ کو سر کرتا ہوں تو اچانک ایک اور پہاڑ منتظر پاتا ہوں۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال پاکستان کی تاریخ میں پانامہ کیس سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اور فیصلہ کے بعد سامنے آئی ہے۔ اکثر و بیشتر عوام اور سیاسی حلقے سمجھتے تھے کہ سپریم کورٹ کے ’’تاریخی فیصلے‘‘ جس کی برسوں بلکہ 100 سال تک یادیں پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی۔ لیکن 20 اپریل کو 2 بجے بعد دوپہر جب فیصلہ سنایا گیا تو اگرچہ دریا تو پار کر لیا گیا اور راستہ میں حائل ایک پہاڑ کی چوٹی بھی سر کرلی گئی لیکن منزل کے حصول میں شاید ابھی کئی دریا پارکرنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کے امتحانات باقی ہیں۔ فیصلہ سنائے جانے کے چند گھنٹوں کے اندر ملک کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور ان کی اتحادی جماعتوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہوں جناب آصف علی زرداری اور عمران خان نے جلدی میں بلائی گئی پریس کانفرنسوں میں حکمران پارٹی کے سربراہ جناب میاں محمد نواز شریف سے فوری استعفی کا مطالبہ کر دیا۔ اگلے روز سپریم کورٹ کی بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ کی بار نے اپنے اپنے سربراہوں کے ذریعے وزیراعظم سے ایک ہفتہ کے اندر اپنے عہدہ سے سبکدوش نہ ہونے کی صورت میں وکلاء کی طرف سے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی معزز بنچ نے تین رکنی اکثریت سے جو فیصلہ سنایا تھا اس میں سفارش کی گئی تھی کہ چند امور کے بارے میں مزید تحقیقات کے لئے 6 ارکان پر مشتمل ایک جائنٹ انکوائری ٹیم سات دن کے اندر جن کے نام عدالت میں پیش کئے جائیں۔ 60 دن کے دورانیہ میں اپنی سفارشات مکمل کر کے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کریں گے۔ جس پر سپریم کورٹ کا قائم شدہ سپیشل بنچ اس مقدمہ کا فیصلہ سنائے گا۔ باقی ماندہ دو معزز جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھے جس میں وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دیئے جانے کی سفارش کی گئی تھی۔ ان ہر دو معزز جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کی تفصیلات اور تین جج صابان کا اکثریتی فیصلہ شائع ہو چکا ہے اور ان پر مختلف سیاسی پارٹیوں کا ردعمل حکومتی پارٹی کی طرف سے مٹھائیاں بانٹنے اور یوم شکر منائے جانے کی تفصیلات بھی قارئین کے سامنے ہیں۔ فیصلے کے اگلے روز تحریک انصاف نے سندھ کے شہر دادو میں ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ کیا۔ PTI کا دوسرا بڑا جلسہ بروز جمعتہ 28 اپریل اسلام آباد میں منعقد کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے کچھ اسی طرح کے اجتماعات پیپلز پارٹی بھی صوبہ سندھ کے علاوہ دیگر بڑے شہروں اور آزاد کشمیر میں منعقد کئے ہیں جس میں آصف علی زرداری صاحب اور ان کے صاحبزادے وزیراعظم پر استعفی کے مطالبہ کا پریشر بڑھانے کے لئے اعلانات کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (قائد اعظم) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے بھی چار رکنی جماعتوں کے اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے جس میں جماعت اسلامی کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی ہے اور آنے والے دنوں کی سیاسی گہما گہمی میں اپنا حصہ ڈالنے کا اعلان کر دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منیر نیازی کا کئی سالوں پہلے کیا گیا شعر آج کل کے موجودہ حالات کی کس حد تک ترجمانی کرتا ہے۔گزشتہ روز عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے سربراہ جو عدالت عالیہ میں موجود تھے ان کو خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحت کی۔ راقم اسے اگر ملائم الفاظ میں وارننگ کہے تو شاید غلط نہ ہو گا انہوں نے کپتان کی طرف دیکھتے ہوئے دھیمے الفاظ میں فرمایا ’’امید ہے آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہونگے‘‘ ۔دوسرا دریا JIT کی تشکیل کا روپ دھاڑ کر ہم سب کے سامنے کھڑا ہے۔ 2 ممبران جن کے نام حکومت نے سپریم کورٹ کو لکھ کر پیش کئے تھے اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے میڈیکل گرائونڈ پر JIT میں صحت یابی تک معذرت کر لی ہے۔ ابھی تو ایک ہی دریا پار کیا تھا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اس کالم کی تحریر کے وقت ابھی چار اور نام بشمول JIT کے سربراہ کے سپریم کورٹ تک نہیں پہنچے ان میں دو نام فوج کے دو اداروں سے متعلق ہیں۔ اس سلسلے میں کور کمانڈر کانفرنس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت فیصلہ قارئین کے غور کے لئے پیش ہے۔ ’’سپریم کورٹ کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔ فوج JIT میں قانونی اور شفاف کردار ادا کرے گی‘‘۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کی وضاحت مزید واضح ہو جائے گی۔ جب حکومت وقت فوجی قیادت اور عدلیہ مل کر اس دوسرے دریا کے پار پہنچ کر JIT کی کارروائی مقرر کردہ دورانیہ یعنی 60 دن کے اندر مکمل کر کے سپریم کورٹ کے اسپیشل بنچ کے سامنے پانامہ کیس کا آخری فیصلہ سنائیں گے۔
راقم کے خیال میں تیسرا دریا یا راہ میں حائل پہاڑ کہہ لیجئے ڈان لیکس کی رپورٹ اور اس کے نتائج پر کنٹرول کرنے سے تعلق رکھتا ہے اس بارے میں ابھی تک صرف اتنا کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے اپنی رپورٹ وزیراعظم کے دفتر میں جمع کرا دی ہے۔ جہاں وہ وزیراعظم کے زیر غور ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کالم شائع ہونے تک یہ تیسرا دریا بھی کامیابی سے پار ہو جائے لیکن دریا کی طوفانی لہریں اور کئی مگرمچھ راہ میں حائل نظر آتے ہیں۔ہر صورت میں ایک بات واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے پانامہ گیٹ کے بارے 20 اپریل کے فیصلہ کے بعد وزیراعظم اور ان کے خاندان کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار 60 دنوں کے لئے ٹل گئی ہے اور ان کو عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے کاروبار سلطنت معمول کے مطابق دو ماہ کے لئے مزید اپنی مرضی کے مطابق جاری و ساری رکھنے کا موقع مل گیا ہے۔ جس میں سب سے بڑی بات موجودہ حکومت کے حق میں یہ ہے کہ آئندہ مالی سال 2017-18ء کا بجٹ اور دیگر میگا پروجیکٹس جن میں پاک چائنہ اکنامک کوریڈار شامل ہیں ان کا تسلسل جاری رہے گا۔ اکثر لوگ مسلم لیگ (ن) اور ان کے حمایتی حکمران الائنس کے مٹھائی بانٹنے اور فتح کا جشن منانے پر اپوزیشن جماعتیں اعتراض کرتی ہیں۔ لیکن کیا کسی بڑے سنگین مقدمہ میں ضمانت ملنے پر کیا متعلقہ فریق عارضی طور پر ہی سہی سکھ کا سانس نہیں لیتا اور مٹھائیاں نہیں بانٹتا۔ آخری فیصلہ جو بھی اور جب بھی ہو گا اس دورانیہ میں شریف خاندان کو اور خاص طور پر وزیراعظم کو بہت بڑا ریلیف اللہ کی طرف سے عدالت کے فیصلہ کی صورت میں مل گیا ہے۔
اس دورانیہ میں پوری قوم اور تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے جذبات اور اضطراب پر قابو رکھتے ہوئے اگلے 60 دنوں تک سپریم کورٹ کے 20 اپریل کے فیصلہ کو اپنے منطقی انجام پر پہنچنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ پاکستان کے موجودہ الجھے ہوئے حالات سے نجات پانے کا اپنی جمہوری منزل تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جلد از جلد نئے قومی انتخابات کی طرف رجوع کرنے کے لئے مل جل کر آئینی راستہ ہموار کرنے میں پوری قوم اس ایک پوائنٹ ایجنڈا پر ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے ساتھ اس منزل کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں۔