عدالتِ عظمی کا فیصلہ،میاں صاحب اور ہمارا کل

پاکستان کی عدالت عظمی کے فاضل جج صاحبان کی یہ رائے ہم سب بار بار سنتے رہے کہ پانامہ گیٹ کے مقدمے کا فیصلہ مدتوں یادر رکھا جائے گا لوگ تو حیران بھی تھے مگر مجھے تو اس کا پختہ یقین تھا میری رائے میں یہ فیصلہ صرف تاریخی ہی نہیں بلکہ تاریخ ساز بھی ہے اپنی اہمیت کے لحاظ سے یہ تاریخی تو ہے مگر بعض پہلوو¿ں نے اسے تاریخ ساز واقعہ بھی بنا دیا ہے اس کا پہلو تو یہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ کے لوگوں نے تقریباً ایک سال کے دوران قوم کے کان بھی کھالئے ہیںاور دماغ بھی چاٹ لئے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئیگا اور وہ خوشدلی سے اسے من وعن مان لیں گے مگر اب فیصلہ آنے کے بعد میاں نواز شریف کے سوا کوئی بھی اسے من وعن نہیں مان رہا! عجب بات ہے کہ فیصلہ سنتے ہی اپوزیشن کے بڑوں نے زورشور سے خدا کا شکر ادا کیا اور شکرانے کے نفل پڑھنے کے علاوہ جج صاحبان کو شاباش دی اور لڈو کھاتے ہوئے رقص بھی کرتے دکھائی دیئے مگر دوسری طرف نواز اور شہباز خوشی سے گلے ملنے اور خدا کا شکر بھی ادا کرتے ہوئے نظر آئے مگر لڈو نہ خود کھاتے اور نہ گھر والوں کو کھلائے یہ کنجوسی نہیں؟!البتہ میں نواز شریف صاحب نے اطمینان کے ساتھ اعلان کیا کہ آگے بھی عدالت عظمی کے تمام احکام کی تعمیل ہوگئی یہ میاںصاحب کا بڑا پن ہے جو یاد رکھا جائیگا
اپوزیشن والوں کو یہ فکر بھی کھارہی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اب معمولی افسروں کے سامنے صفائی کیلئے پیش ہو گا؟ مگر میاں صاحب چپ ہیں شاید وہ قرون اولیٰ کے بزرگوں کی سنت کو زندہ کرےت ہوئے دارصل معمولی افسروں کے بجائے وہ اسے عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل سمجھتے ہوں گے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ کیونکہ یہ تمام تحقیقات براہ راست عدالت کی مسلسل نگرانی میں ہوگی اس لئے اس کے منصفانہ ہونے کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیںلگتا یوںہے کہ اپوزیشن کے بڑے یہ جان چکے ہیں کہ کیس میں کوئی جان نہیں ہے اور میاں صاحب باعزت بری ہو جائیں گے اور غالبا میاں صاحب بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں اور اس امید پر چپ اور مطمئن ہیں کہ وہ باعزت ہونگے !اپوزیشن کے بڑوں کو چونکہ شدید خطرہ ہے کہ وزیر اعظم بری ہو کر عوام میں پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہو جائیں گے اس لئے وہ ایک نقطہ پر متفق ہو گئے ہیں کہ میاں نواز سے کرسی چھین کر چور دروازہ سے ہی اس پر قابض ہو سکتے ہیں ورنہ نہیں!
اس تاریخی فیصلہ پر عدالت عظمی کی رائے سچ ثابت ہو جاتی ہے کہ فیصلہ سنتے ہی دونوں فریق یکساں خوش تھے اور اسے اپنی اپنی فتح اور خوش نصیبی سمجھنے لگے تھے ایسے کم ہوتا ہے بلکہ ہوتا ہی نہیں ایک فریق ہنستا ہے تو دوسرا روتا ہے مگر یہ عجب بات ہے کہ خوشی اور فتح میں تو یہاں دونوں فریق یکساں خوش تھے مگر اگلی صبح کو صرف ایک فریق بھی مدعی روتے اورچلاتے ہوئے اٹھا اور احتجاجی تحریک کااعلان کرکے عوام کو پریشان کر دیا ہے لیکن میاں صاحب اسی طرح خوش بھی اور عدالت عظمی پر حسب سابق اعتماد کا اظہار بھی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں ایک سال اور عوامی خدمت و تعمیر کا موقع مل جائے لیکن اپوزیشن کے بڑے اعلان کر رہے ہیں کہ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے ملک جائے بھاڑ میں انہوں نے چور دروازہ بنانے کیلئے میاں نواز شریف سے کرسی چھین کر ہی دم لیناہے! یہ تو درست ہے کہ کرپشن کا ہر مستحق ضرور سزا پائے گا مگر صرف ایک آدمی کو ہی نشانہ بنالینا مگر کرپشن کے پہاڑ اٹھانے والے باقی سب بخش دیئے جائیں صرف اس لئے کہ وہ نہ تو پنجابی ہیں نہ لاہوری جبکہ میاں نواز پنجابی لاہوری ہے مگر وہ نرم دل اور تحمل مزاج ہونے کے ساتھ قوم وطن کی خدمت اور تعمیر میں بھی لگا ہوا ہے، شاید اسی لئے 2013ءکے الیکشن کے بعد سے کسی نہ کسی حیلے سے اور کچھ مدت کیلئے ہی سہی اسے کرسی سے اتارنے میںلگے ہوئے ہیں تاکہ وہ کام نہ کرسکے اور بڑے بڑے لوگوں کے لئے کرسی خالی کرکے گھر چلا جائے کبھی دھاندلی کے الزام میں، کبھی کسی امپائر کی انگلی کا اشارہ دیکھ کر یا فسادی دھرنوں کے ڈر سے اور اب دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹ سے حالانکہ بیچ کی اکثریت نے تو میاں صاحب کو صفائی پیش کرنے کا موقع دیاہے مگر اب تو سب نے ہر حال میں انہیں کرسی سے اتارنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس میں وہ بزرگ بھی شامل ہیں جو پرویز مشرف کو دس بار وردی میں ہی جمہوریت کا تاج پہنانے کیلئے تیار تھے میں یہ سمجھتا ہوں کہ عدالت عظمی کے فیصلہ پر عمل نہ کرنا تو ہیں عدالت کے زمرے میں آتا ہے عدالت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے؟ فاضل عدالت نے تحقیق کیلئے اپنی براہ راست نگرانی جو ٹیم مقرر کی ہے وہ ذمہ دار اور غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل ہے وہ وقت اور طریقہ کار کی پابند بھی ہوگی اس عدالتی فیصلہ پر عمل باقاعدگی، سنجیدگی اور انتہائی تحمل اور احتیاط کا تقاضا کرنا ہے ہمارا پیارا وطن شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے اقتصادی راہ داری کو جو منصوبہ زیر تکمیل ہے وہ ہمارے کل کا ضامن ہے ہمارے بہادر سپوتوں اور سرفروش مجاہدوں نے دہشت گردی کے خلاف جو مجاہدانہ جدوجہد شروع کررکھی ہے اس نے ہر حال میں اللہ کے حکم سے کامیاب ہونا ہے عالمی صہونیت کے گھوڑے پر سوار انکل سام نے افغانستان میں داعش کو سرگرم کرانے کی کوشش شروع کردی ہے اور وہ گھمنڈی برہمن کے خچر کو بھی تیار کرلیا ہے ہمارا مخلص دوست چین سب کو چبھتا ہے گھمنڈی برہمن تو چین کے مقابلے اپنی ہندو امپائر کو جنوبی ایشیا کی سپر پاور بنانے کے خبط میں مبتلا ہے، اس لئے ہم نے اپنے دوست چین کو کسی حال میں بھی نیچا نہیں ہونے دینا بلکہ ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے اگر ہم نے ذرا سی بھی کوتاہی ہوگئی تو کام بگڑ جائے گا، مجھے یہ بھی امید ہے کہ میرے تمام سیاسی لیڈر اس نزاکت سے آگاہ ہے، اس لئے میری سب سے یہ التجا ہے کہ صرف ساٹھ دن کچھ تحمل، تعاون اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ہمارے کل کا بچائیں، اگر عدالت عظمی اپنے وزیراعظم کو گھر بھیجتی ہے تو شاید زیادہ مناسب ہو، آپ اپنے وزیراعظم کو کرسی سے گراکر جمہوریت کا جنازہ نہ نکالیں آگے آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں جو راستہ بھلا لگے احتیاط فرمالیں، اللہ تعالیٰ اور تاریخ ہم سب کا محاسبہ کرنے والے ہیں!!

ای پیپر دی نیشن