وے مُنڈیا سیالکوٹیا تے اک دانشور خاتون

ڈاکٹر بابر اعوان نے خواجہ آصف کی نااہلی پر بہت خوبصورت جملہ کہا ہے۔ اتنی بات تو نوازشریف کے لئے نااہلی کے فیصلے پر نہ ہوئی تھی، خواجہ صاحب کے فیصلے پر لوگوں کی گرمجوشی دیکھ کر خوشی ہوئی صرف برادرم عثمان ڈار کو مبارکبا دینے سے پورا کام نہیں ہوگا۔ پورے سیالکوٹ کو مبارک ہو۔
جب سے ہم نے سیاست کے لئے سوچنا شروع کیا ہے۔ سیالکوٹ میں خواجہ خاندان کی سیاسی اجارہ داری ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ تکبر کو شکست ہوئی ہے۔ سیالکوٹ میں نوجوان سیاسی لیڈر عثمان ڈار نے ایک ایسی فضا بنائی ہے کہ اب روایتی اور پرانے دولتمند سیاستدانوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ خواجہ آصف کے خلاف عدالتی فیصلے پر لوگ عثمان ڈار کو مبارکباد دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ان کا اسحاق ڈار سے کوئی تعلق نہیں۔ خواجہ صاحب پاکستانی سیاست میں اسی طرح کا کردار ہے جو ڈاروں وچھڑی کونج کا ہوتا ہے۔ اب یہ گیت بہت پاپولر ہوا ہے
وے منڈیا سیالکوٹیا
عثمان ڈار ایک متحرک تازہ دم مستعد، بہادر اور مخلص نوجوان ہے۔ اس کے مقابل ایسا سیالکوٹ میں کوئی نہیں ہے میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ سیالکوٹ میں کچھ ایسا ضرور ہو جو اس شہر کی تاریخی حیثیت کو سامنے لائے۔ علامہ اقبال کا یہ شہر لاہور کی طرح کوئی ایسی صورت نہیں بنا سکا۔ عثمان ڈار سیالکوٹ کو شہر اقبال بنائے۔
پچھلے ساٹھ سال میں یہاں کچھ بھی نہیں ہوا۔ پرانی سلطنتیں قائم رہیں تو عوام دکھ سے بھر جاتے ہیں۔
میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ عثمان ڈار کس طرح جرات مندانہ سرگرمیوں میں لگا رہتا ہے۔ وہ تقریر بھی اچھی کر لیتا ہے جبکہ خواجہ آصف کے کسی انداز میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ تاثر بھی ٹھیک نہ تھا کہ سیالکوٹ سیاست کے خواجوں کا شہر ہے کیوں نجانے ابھی تک پاکستان میں موروثی سیاست کے آثار موجود ہیں۔ اب عثمان ڈار نے یہ ثابت کرنا ہے کہ سیاست اور قیادت میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔
جی تو یہ چاہتا ہے کہ الیکشن میں خواجہ صاحب ہوتے اور لوگ انہیں مسترد کر دیتے لیکن لوگوں کو ابھی کوئی امید نہیں ہے کہ خیالات بدلنے میں اتنی دیر نہیں لگے گی۔ ایک ضرب المثل ہے دیر آید درست آید۔ بات دیر کی نہیں ہے درست ہونے یا نہ ہونے کی ہے۔
سیالکوٹ سے ذرا دور پاک بھارت سرحد کے بہت قریب ایک شہر ہے چونڈہ جہاں رہنے والی تخلیقی اور تہذیبی شخصیت بے قراریوں اور سرشاریوں کو ایک کر دینے والی فطری طور پر دانشور بہت پڑھی لکھی معزز صوفی خاتون شکیلہ جبیں سے بات ہوتی رہتی ہے۔ لاہور صرف دو بار آئی تھی۔ چونڈہ پاک بھارت 65 ءکی جنگ کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں ٹینکوں کی بہت بڑی لڑائی ہوئی تھی۔
شکیلہ جبیں، تنہائیوں کی سہیلی ہے اور اکیلی ہواﺅں کی راز دار ہے۔ وہ بے پناہ شاعرہ ہے۔ اس نے پنجابی میں لکھا ہے اسے نمایاں ہونے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اس نے کبھی سیاسی موضوعات پر بات نہیں کی۔ وہ بہت بے نیاز شخصیت کی مالک ہے۔
صوم تے صلوٰة میں مصلیٰ لیئا ڈاہ
رب رب رب دا میں رولا لیئا پا
قبر دے عذاب وچ لُونبھیاں دا
مرن اگے رکھ میں جیون گئی کھا
چھل چھل پیندے ہاسے کیہہ چاہ
شرع وچ ساڑھ کے میں کر لئے سواہ
ہنھیر ویکھ عرشاں توں رب گیئا آ
کھچیا مصلیٰ آکھے کھیڈنی ایں وائ
ست اسماناں وچ شرح دی صلاح
واءجہیڑا کھیڈے اوہدے مُک جاندے ساہ
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...