جن دنوں خالد احمد ”پہلی پو ‘ پہلی پروائی“ کہہ رہے تھے‘ میرے شب و روز ان کی صحبت میں گزر رہے تھے۔ وہ روزانہ اس نظم کے کچھ اشعار مجھے سناتے اور یہ تاکید کرتے کہ ”انہیں ترنم کے ساتھ مجھے سناﺅ!“ یوں تو میرا حافظہ کچھ ایسا اچھا نہیں‘ لیکن جو شعر میں گنگناتا رہتا ہوں‘ وہ مجھے ازبر ہو جاتا ہے۔ غالباً خالد احمد کو میری اس کمزوری کا علم تھا۔ سو میں گنگناتا رہتا اور مجھے اس شاہکار نظم کے اشعار سناتے رہتے
گل گت سے گت مت جاتا تھا
رو میں رستہ ریشم کا تھا
اس نظم کو انہوں نے اگرچہ ترتیب کے ساتھ نہیں کہا‘ لیکن مختلف بند سن کر یہ احساس ہو جاتا تھا کہ اس سے پہلے اور بعد میں کون سا حصہ آئے گا۔ یوں وہ غیر مربوط کہنے کے باوجود اس کی ترتیب مجھے سمجھاتے چلے گئے۔ اس نظم میں ایک حصہ وہ ہے جس میں حضرت امیر حمزہؓ کے اس انتقام کا ذکر ہے جو انہوں نے ابوجہل سے اس بنا پر لیا تھا کہ اس نے رسالت مآب کو زخمی کر دیا تھا۔ اس حصے کو خالد احدم نے یہ عنوان دیا ہے۔مزمور مرفوز (صدیوں پر پھیلی ہوئی نظم کا ایک لمحہ) یہ معرکتہ الآر نظم غزل اور مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے اور اس میں سات زبانیں اس مہارت اور خوش اسلوبی سے استعمال کی گئی ہیں کہ نظم کے صوتی تاثر میں دوچند اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ ہفت زبان نظم اردو‘ فارسی‘ عربی‘ عمرانی‘ ہندی‘ سنسکرت اور پرتگالی کا حسین ترین امتزاج ہے۔ کہیں کہیں اکا دکا پنجابی کے الفاظ بھی شامل کئے گئے ہیں۔ اس نظم کا آغاز تاجروں کے قافلے کے بیان سے ہوتا ہے جو شاہراہ ریشم کے ذریعے ہنزہ میں پڑاﺅ ڈالے ہوئے ہے۔ اس حصے میں قبل اسلام کے تمام مذاہب کا بھی تعارف کروایا گیا ہے اور پھر مکہ مکرمہ کے ایک مسلمان تاجر کی وساطت سے اسلام کی آمد کا تذکرہ بھی کر دیا گیا ہے۔ ”پہلی پو‘ پہلی پروائی“ بنیادی طورپر ایک نعتیہ نظم ہے جس کا بالکل نیا انداز اور جدید ترین ڈھب خالد احمد کی ندرتِ خیال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے اس میں ولادت باسعادت‘ اعلان نبوت‘ تبلیغ اسلام‘ نزولِ قرآن‘ کفار مکہ کا جبر و ستم‘ ہجرت‘ مدینہ منور آمد‘ معراج‘ غزوات‘ مثاق مدینہ‘ زہریلا کھانا‘ حضور پُرنور کا وصال اور وصیت کے واقعات کو زیادہ تر تفصیل کے ساتھ اور کہیں کہیں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد والے حصے میں غزل شامل ہے اور آخری حصے سے پہلے تخلیق کائنات‘ آفرینش آدم و حوا اور زمیں کی طرف ہبوطِ آدم و حوا کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ خالد احمدد اپنی تخلیقات کبھی کسی ڈائری یا کاپی میں تحریر نہیں کیا کرتے تھے بلکہ مختلف کاغذ کے پرزوں پر لکھ لکھ کر اپنے شاپر بیگ میں یہ انمول خزانہ جمع کرتے جاتے تھے۔ بعد میں مرتب کر لیا جاتا تھا۔ ”پہلی پو‘ پہلی پروائی“ کی تخلیق کا دورانیہ تقریباً تین سال سے کچھ زیادہ پر محیط ہے۔ مجھے مسلسل ان کے ساتھ رہنے اور اس نظم کو گنگنا کر ترتیب کا کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ جب بھائی عمران منظور نے اس نظم کی اشاعت کا ارادہ کیا تو میں نے ان سے گزارش کی کہ یہ نظم مجھے دکھائے بغیر شائع نہ کیجئے گا سو انہوں نے پہلا پروف مجھے بھجوا دیا۔ پہلا پروف پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ایک تو اس کی ترتیب درست نہیں اور دوسرے یہ کہ ایک بہت بڑا حصہ غائب ہے جو شامل نہیں ہوا۔ میں نے نعمان بھائی سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ جتنا مواد ہمیں ملا ہم نے کمپوز کروا دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ خالد صاحب کے شاپر بیگ آپ نے نہیں کھنگالے۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا پھر میرے کہنے پر انہوں نے خالد احمد کے تمام شاپر بیگ لا کر میرے حوالے کر دیئے۔ چار ماہ کی شبانہ روز کاوش کے دوران مجھے وہ تمام مواد مل گیا جس کی مجھے تلاش تھی۔ اب یہاں دو مسائل درپیش تھے۔ ایک یہ کہ گرو کا رسم الخط‘ لکھے موسیٰ پڑھے خدا کے مانند ہے‘ لیکن مجھے چونکہ ان کی زندگی ہی میں ان کی لکھائی پڑھنے کا محاورہ ہو چکا تھا لہٰذا یہ مسئلہ طے ہو گیا۔ دوسرا کٹھن مرحلہ یہ تھا کہ خالد صاحب نے ایک مصرع کی دس دس شکلیں لکھی ہوئی تھیں۔ یعنی ایک مصرع کے دس امکانات۔ یہ مرحلہ خالد صاحب کی روحانی رہنمائی کے طفیل یوں طے ہوا کہ وہ فائنل مصرع کے ساتھ ایک کوڈ لکھ دیا کرتے تھے۔ وہ کوڈ میری سمجھ میں آگیا اور یوں یہ مشکل مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ فنی اعتبار سے اس نظم کا آخری حصہ قابل تحسین ہی نہیں‘ باعث حیرت بھی ہے۔ اس حصے میں خالد احمد نے ”صوت حرفی“ کا بھرپور مظاہر کیا ہے جو کم از کم میں نے آج تک اردو شاعری میں کہیں اور نہیں دیکھا۔ ”صوت ِ حرفی“ میں الغبائی ترتیب سے مصرع آرہے ہیں۔ یعنی اگر ”من“ کا صرف استعمال ہو ہوا ہے تو ایک مصرع میں چارالفاظ ہیں تو چاروں کا آغاز حرفِ ”من“ سے ہی ہوگا۔ مثلاً ....
خرابِ صندین ضمائر
ضعیف ضیا تھا‘میر ضحا تھا
اس حصے میں الف حمدورہ سے ”ی“ تک صرف لغت کہی گئی ہے۔ جن دنوں وہ فضل ہوٹل لکشمی چوک میں بیٹھا کرتے تھے یہ نظم مکمل ہونے کے بعد انہوں نے ایک دن مجھے کہا ”یار کسی دن آﺅ تاکہ ”پہلی پو‘ پہلی پروائی“ کو مرتب کر لیں۔ پہلی بار میں بھول گیا۔ انہوں نے کچھ دن بعد بار دگر ہی کہا اب کہ میں ایک اتوا کو صبح ان کے بیدا ہونے کے وقت نسبت روڈ والے گھر پہنچا۔ دو گھنٹے کے بعد جب وہ نہا کر نکلے تو مجھے دیکھ کر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ بولے ”آج صبح صبح کیسے؟“ میں نے کہا آج ہم ”پہلی پو‘ پہلی پروائی“ کا کام کریں گے۔ مسکرائے اور بولے ہاں! یارآج مجھے ایک ضروری کام سے کہیں جانا ہے‘ لیکن جلدہی کر لیں گے یہ کام.... اور اس کے بعد یہ نوبت نہ آسکی۔
آج میں سوچ کر حیران ہوں کہ وہ ”پہلی پو‘ پہلی پروائی“ کو ترتیب دینے کا اعزاز مجھے بخشنا چاہتے تھے جس کی مہلت زندگی نے انہیں نہیں دی‘ لیکن شاید وہ یہ دعا کرتے تھے کہ یہ کام جمشد چشتی ہی کرے۔ خالد احمد ایک درویش تھا اور درویش کی دعا وقت اور زندگی کی پابند نہیں ہوتی۔