مریم نواز شانہ بشانہ .... زرداری کا دعویٰ

مریم نواز اس حوالے سے خراج تحسین کی مستحق ہیں کہ وہ لندن میں کینسر کی شکار بیمار ماں سے جدا ہونے کے باوجود نہایت مشکل گھڑی میں اپنے بہادر پاپ نواز شریف کی دست و بازو بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے پنجاب اور پاکستان کی سیاست کا رنگ تبدیل کردیا ہے۔ نوازشریف کے ہمراہ جلسوں میں شریک ہوتی ہیں، نواز شریف سے پہلے خطاب کرکے مجمع میں جذباتی، پرجوش اور ولولے کی فضا طاری کر دیتی ہیں اور پھر نواز شریف عوام کے جم غفیر کو گرماتے ہیں۔
کیا عورت کمزور ہوتی ہے؟ کیا بے نظیر کمزور تھیں، ایک اور بے نظیر موجودہ سیاسی فضا میں طلوع ہو رہی ہے، سب حیران ہیں، مریم نواز نے بازی پلٹ دی ہے، سوچا تھا کیا کیا ہو گیا۔عمران خان خاص طور پر مریم نواز سے پریشان ہیں۔ 2011ءمیں مینار پاکستان کے جلسہ کے بعد جو فاتحانہ کیفیت انہوں نے پنجاب میں پیداکی تھی وہ دھیمی ہو چکی ہے۔ عوام کا عمران خان کے حق میں جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا ہے یکے بعد دیگرے وہ ضمنی الیکشن ہارتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ ترین کا حلقہ لودھراں بھی ہار اور شکست کی المناک تاریخ بن گیا۔ لاہور میں اپوزیشن کے جلسے میں عمران خان نے خالی کرسیوں سے خطاب کیا۔ اس سے پہلے خالی کرسیوں سے خطاب وہ اسی لاہور میں حلقہ 120 کے الیکشن میں کر چکے ہیں۔اب عمران خان نے 29 اپریل کو لاہور میں مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے مگر امکان ہے کہ یہ جلسہ بھی ناکامی کی نئی تاریخ مرتب کرے گا۔ یہ کرشمہ مریم نواز کا ہے کہ انہوں نے عمران خان کے IMAGE کو DEMAGE بھی کیا ہے اور EXPOSE بھی یہ بات بھی عمران خان کے حق میں نہیں گئی ہے کہ وہ خود کا تعلق ESTABLISHMENT سے ظاہر کرتے ہیں۔ آصف زرداری نے پی پی کا پٹڑہ کر دیا ہے۔ لاہور کے الیکشن میں مریم نواز کی جدوجہد کے نتیجے میں پی پی کو دو ہزار ووٹ بھی نہیں ملے تھے۔ آصف زرداری بڑھکیں مار رہے ہیں حالانکہ پنجاب میں پی پی کا صفایا ہو گیا ہے اور پی پی کا نام لیوا بھی کوئی نہیں ہے۔ آصف زرداری خود سہانے خواب دیکھ رہے ہیں حالانکہ خود انہوں نے اپنے بیٹے بلاول کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔بلاول تو ذرا بھی مریم کی شخصیت اور سیاسی IMAGE کے سامنے نہیں ٹھہر سکے۔ کہاں مریم نواز، گرجتی ہوئی مقبول آواز اور کہاں بلاول بے چارہ!
پوری مسلم لیگ (ن) وہ تعاون فراہم نہیں کر سکتی تھی جو مریم نواز نے اپنے باپ کو فراہم کیا ہے۔ نواز شریف مشکل آدمی ہیں، بیٹا ہو یا بیٹی، بھائی ہو یا سیاسی لیڈر وہ مشکل سے ہی کسی کا اعتبار کرتے ہیں۔ جب کر لیتے ہیں تو آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرتے ہیں۔ مریم نواز کے ساتھ بھی یہ ہوا۔ پہلے نواز شریف نے ایک بیٹی کا جذباتی تعلق سمجھ کر نظرانداز کیا۔ مگر جب سیاسی جوہر دیکھے تو اعتبار بھی آیا اور ایک باپ کا فخر بھی جاگا کہ ایک سیاسی باپ کی سیاستدان بیٹی میں سیاسی ذہانت اور تدبر بھی ہے۔ سیاسی فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی اور جیل جانے کا عزم بھی۔ مریم نواز نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے، ہتھکڑیاں لگائیں گے، جیل میں بند کریں گے اور بس، مریم نواز کی صورت میں اللہ تعالی نے اپنی برکت سے نواز شریف کو بہت قیمتی سیاسی خزانہ فراہم کر دیا ہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشنہ خدائے بخشندہ
دنیا میں سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ شخصیات میں ایک جیسی جھلک موجود ہوتی ہے۔ جیسا کہ بھٹو اور نواز شریف میں مماثلت ہے اور بے نظیر اور مریم نواز میں،
14 اپریل کو بھٹو کی برسی کے موقع پر آصف زرداری نے مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے۔ زرداری صاحب کا تازہ ارشاد ہے کہ وہ نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کر دیں گے۔ جو تماشہ مل جل کر زرداری صاحب نے سینٹ میں کر لیا وہ عام الیکشن میں نہیں ہو سکتا خواہ نواز شریف کو اپنے دوستوں سے سزا دلوا دیں۔ نواز شریف نے ٹھیک اسی روز اعلان کیا ہے کہ ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا مقابلہ کروں گا۔سینٹ الیکشن کی دھاندلی میں عمران خان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی پارٹی کے ووٹ زرداری کے امیدوار کو ڈالے۔ اس صورتحال نے عمران خان کی سیاست کو بے نقاب کر دیا ہے۔2018ءکے الیکشن میں زرداری اور عمران خان کی پیٹھ ٹھونکی جا رہی ہے مگر نواز شریف اور ان کی سیاسی وارث مریم نواز کو باندھ کر الیکشن لڑایا جا رہا ہے۔ سلام ہے پاکستان کے عوام کو جو اب شعور اور ہمت میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔جن لوگوں کا خیال ہے کہ ساری جنگ ٹی وی چینلوں پر لڑیں گے تو لڑ کر دیکھ لیں، نواز شریف PAPULAR ہے ووٹ بہرحال نواز شریف کی پارٹی کو ملیں گے۔ پنجاب میں زرداری اور عمران الیکشن سے پہلے شکست کھا چکے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں پی پی کو جو ووٹ ملے وہ ہر جگہ زرداری کی شرمندگی کا ثبوت تھے۔مریم نواز نے اپنے باپ کی سیاسی اور قانونی جنگ میں مکمل ساتھ دیا ہے۔ سیاست میں نواز شریف نے مقابلے کا عزم کیا ہے اب ان کی پارٹی کو 2018ءکے الیکشن میں ہرانا ناممکن ہے۔ الیکشن سینٹ کی طرح جعلی ہوئے تو عوام خود نمٹ لیں گے۔ کسی ادارے کو سیاست میں مداخلت کرکے اپنا IMAGE برباد نہیں کرنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...