لاہور (خبر نگار) مولوی فضل الحق نے تحریک پاکستان میں بھرپورحصہ لیا۔ آپ نے مسلمانان برصغیر کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے نہایت سنجیدہ کوششیں کیں۔ مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تاریخی قرار داد پاکستان کو پیش کرنے کا اعزاز شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق کو حاصل ہوا۔ ان خیالات کاا ظہار پروفیسر اقراء ظہیر نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں مولوی اے کے فضل الحق کی 56ویں برسی کے موقع پر خصوصی لیکچر کے دوران کیا۔ پروفیسراقراء ظہیرنے کہا کہ مولوی القاسم فضل الحق 26اکتوبر 1873ء کو پاریسال (بنگال) کے ایک چھوٹے سے گائوں ستوریہ میں پیدا ہوئے۔ 1883ء میں پریذیڈنسی کالج کلکتہ سے ایف اے پاس کیا۔ 1895ء میں ایل ایل بی کی ڈگری لی اور 1900ء میں کلکتہ ہائیکورٹ میں وکالت شروع کردی۔ مولوی فضل الحق مسلم لیگ کے شروع سے ممبر رہے۔ مسلم لیگ کے باقاعدہ قیام سے پیشتر اس کے لیے آئین اور منشور کی تیاری کے لیے جو چار رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی‘ ابوالقاسم فضل الحق اس کمیٹی میں شامل تھے۔
1913ء میں صوبائی مسلم لیگ بنگال کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ مولوی فضل الحق نے 1912ء میں سنٹرل نیشنل محمڈن ایجوکیشنل ایسوسی ایشن بھی قائم کی تھی۔ تحریک خلافت کا آغاز ہوا تو اس میں بھرپور حصہ لیا۔ 1924ء میں بنگال کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ مولوی فضل الحق نے 1930ء سے 1933ء تک لندن میں منعقد ہونے والی تینوں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ 1937ء میں فضل الحق بنگال کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ وہ اپنے اس عہدے پر 28مارچ 1942ء تک کام کرتے رہے۔ اپنے دور وز ارت کے دوران آپ نے بہار‘ اڑیسہ اور آسام کے صوبوں میں مسلم لیگ کی بے شمار شاخیں قائم کیں۔ قرار داد لاہور کو پیش کرنے کا اعزاز مولوی فضل الحق کو حاصل ہوا‘ ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں ہزاروں مسلمانوں کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑا۔ ان کے مقدمات کی پیروی مولوی فضل الحق نے کی اور انہیں عدالتی مصائب اور سزائوں سے محفوظ رکھا۔ 1951ء میں مشرقی پاکستان کے ایڈووکیٹ جنرل بنے۔ 1955ء میں مرکزی وزیرداخلہ اور 1956ء میں گورنر مشرقی پاکستان رہے۔ آپ کا انتقال27اپریل 1962ء کو ہوا اور ڈھاکہ میں دفن ہوئے۔