آبی مسائل اور وسائل کے متعلق بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ اردو، سندھی ، انگریزی اخبارات میں کالم، کاشتکاروں کے ماہناموںمیں مضامین اور مختلف فورمز پر تقاریر اور خطابات کرتا رہا۔ سندھ، خصوصاً تھر کی آبی مشکلات کے متعلق بہت لکھا، تقاریرکیں اور منصوبے پیش کیے۔ سندھ کے دانشوروں سے مکالمہ کرتا رہا اور سندھ وژن کے دانشوروں کو لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں کالا باغ ڈیم کمیٹی کی میٹنگ میں مدعو کیا اوران سے مکالمہ کیا، سندھ کے عوام کے معروضات اور اعتراضات معلوم کئے اور نوائے وقت میں مفصل کالم لکھے۔ ہماری کالا باغ ڈیم کمیٹی نے انجینئر محمد سلیان خان اور ان کی ٹیم کے ساتھ راقم کو بحیثیت ٹیکنیکل ممبر آبی وسائل اور نمائندہ برائے سندھ شامل کر کے وفد کی صورت میں چیئرمین واپڈا سے طے شدہ وقت پرملاقات کا ہماری بڑی آئو بھگت ہوئی اور چیئرمین کے پرنسپل اسٹاف آفیسر بریگیڈئر عباس جنجوعہ نے وفد کی چیئرمین واپڈا جنرل مزمل حسین کے دفتر تک رہنمائی کی۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب جنرل صاحب نے میرے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے سندھی ہیںفرمایا کہ کرنل بگٹی صاحب آپ سے تعارف ہے ، آپ کی کتاب (پاکستان آبی وسائل) کا مطالعہ کر چکا ہوں اور کالمز میں تجاویز کا مطالعہ بھی کرتا رہتا ہوں۔ جنرل مزمل حسین صاحب سے بہت اہم آبی اور توانائی معاملات پر طویل اور بامعنی گفتگو ہوئی۔ بعدازاں واپڈا کے انجینئر نے ملٹی میڈیا پر ڈیمز اور ہائیڈرو پاور کے مکمل کئے ہوئے اور جاری منصوبوں پر پریذنٹیشن دی گئی۔ جس سے معلوم ہوا کہ کس طرح نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کی نئے سرے سے زلزلہ پروف ڈیزائننگ کی گئی۔ سرنگوں کی لمبائی اور تعداد بڑھائی گئی جس سے تعمیراتی اخراجات میں اضافہ ہونا لازمی تھا مگر نئے ڈیزائن پر تعمیر مکمل کرنے کے بعد نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور جو کہ ای اسٹریم یعنی نیلم دریا پر اوپر بہائو پر انڈیا نے بنایا ہے۔ اس کے ممکنہ منفی اثرات کو زائل کیا گیا اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کی ڈیزائن شدہ استطاعت 969MW کی پیداوار میں کمی نہیں ہونے دی گئی۔ نیا ڈیزائن اتنا عمدہ ہے کہ ابھی نیلم جہلم ہائیڈرو پاور سے 1007MW میگا واٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے جس سے قومی خزانہ کو سالانہ 553 ارب روپیہ کی آمدن ہوتی ہے۔ یہ ہائیڈرو پاور محکمہ ایری گیشن کے ریکویزشن کی محتاج نہیں اور اپنی ڈیزائن کی بدولت 365 دن پوری استطاعت سے بجلی کی پیداوار دیتی رہے گی۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے متعلق حیران کن خوشخبری بھی ملی کہ تمام تیاریاں ہو چکی ہیں ا ور بھاشا ڈیم زلزلہ پروف ہی تعمیر کیا جائے گا۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ملک میں آبی ذخائر کی گنجائشMAF 13.00MAF 1905 ہوں گے اور 4500 میگاواٹ پن بجلی کی پیداوار ہو گی۔ مہمند ڈیم پر بھی تعمیراتی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ مکمل ہونے پر دریائے سوات کے کمانڈرایریا میں زراعت کے لیے پانی کی کمی پوری ہو گی۔ علاوہ ازیں ہزاروں ایکڑ بنجر زمین زیر کاشت ہو گی اور 800MW ہائیڈرو پاور کی پیداوار ہو گی۔ دریائے سوات پر مہمند ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور ویلی، نوشہر، مردان ، چارسدہ کے علاقہ جات سیلاب سے محفوظ رہیں گے۔ تربیلا 4 مکمل ہو کر 1410MW کی اضافی پیداوار دے رہا ہے۔ گفتگو کے دوران عرض کیا کہ تربیلا، منگلا، چشمہ ڈیم / بیراج اور وارسک ڈیم کی بحالی کا بندوبست ہونا چاہئے تاکہ مزید ایک بڑے ڈیم جتنا پانی ذخیرہ ہو سکے۔ جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے اس طرح واپڈا کو چاہئے کہ ایسے ڈریجرز ڈیم میں رکھے جائیں جو ڈیم کی تہہ سے گار اور مٹی نکال کر دونوں کناروں کے پار ڈالتے رہیں۔ اس طریقہ کار میں پانی بھی خارج ہو گا جو کہ قریبی زمین کو کاشت کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ ڈیموں میں تیرتے پمپ نصب کئے جائیں جن کے سکشن پائپ ڈیم کی تہہ سے گار اور مٹی پمپ کر کے بلندی پر بنے ہوئے انہار میں ڈالے اور یہ پانی بلندی پر قابل کاشت زمین پرکاشتکاری کے لیے استعمال کیا جائے۔ مذکورہ ڈریجرز اور تیرتے پمپ واپڈا کی ملکیت ہوں، انہیں ہر وقت کارگر رکھا جائے اور مسلسل کام کرتے رہیں۔ اس عمل سے ڈیموں کو گنجائش کم ہونے سے بچایا جا سکے گا اور جب ڈیم میں پانی ڈیڈ لیول پر ہو گا تو ڈریجر اور تیرتے ہوئے پمپوں کے ذریعے گار/ مٹی نکالنے کا عمل بھی تیز ہو گا۔ اس طرح ایک وقت آئے گا کہ ڈیمز کی اصل گنجائش بحال ہو گی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے سے تو موجودہ ڈیمز سلٹ بھر جانے کی بدولت بہائو کے پن بجلی گھر بن کر رہ جائیں گے جیسا کہ وارسک ڈیم بن چکا ہے۔
ماضی میں ہمارے دریا پورا سال پانی سے رواں رہتے تھے۔ اب موسم سرما میں تقریباً خشک ہو جاتے ہیں جس سے ماحولیات پر برے اثرات پڑنے کے علاوہ مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں اور وہ شہروں کی طرف ہجرت کرتے ہیں جس سے شہروں میں آبادی کا دبائو بڑھتا جاتا ہے۔ راقم نے مشورہ دیا ہے کہ دریائے سندھ، دریائے جہلم، دریائے چناب، دریائے راوی اور دریائے ستلج کی بحالی کے لیے جنوبی کوریا کا ماڈل اختیار کیا جائے۔ راقم نے مزید مشورہ دیا کہ چیئرمین واپڈا، چند قابل ہائیڈرو لاجیکل ، ہائیڈرو پاور اور ماحولیاتی انجینئر کو ساتھ لیکر جنوبی کوریا جائیں اور وہاں کی دریائوں کی بحالی کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں۔
وہاں کی آبی و ماحولیاتی ماہرین کے ساتھ مکالمہ کرکے پاکستان کی دریائوں کی بحالی کا منصوبہ بنائیں اور اس پر عمل کریں تاکہ دریائوں کے قرب و جوارمیں کچے کی زمین کوزیرکاشت لایا جائے۔ ماہی گیروں کے لیے مچھلی پکڑنے سے روزگار ملے، دریائوں میں ٹرانسپورٹ کا نظام بنے تو سڑکوں پر ٹریفک کا دبائو کم ہو جائے اور مقامی آبادی کے لیے سفر کا آسان اور سستا بندوبست ہو سکے ا ور دریائوں میں ہر وقت پانی موجود ہو تو مقامی آبادی کے پینے کے لیے صاف پانی مہیا ہو سکے، پانی کے وافر ذخائر بن جائیں، ڈلے ایکشن ڈیموں پر پن بجلی گھر تعمیر ہوں تو مقامی آبادی کو سستی بجلی ملے اور بجلی کی ٹرانسمیشن کے قومی گرڈ پر بھی لوڈ میں کمی آ جائے۔ سب سے بڑھ کر ملک کے ماحولیات میں خوشگوار بہتری آ سکے۔ میں نے عرض کیا کہ ملک کے تینوں صوبوں میں واپڈا کی طرف سے درمیانے ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ کے پی کے میں چار درمیانے ڈیم میں سے ایک مکمل ہو چکا ہے اور باقیوں پر تعمیراتی کام ہو رہا ہے۔ پنجاب میں دریائے چناب پر بھمبھر ڈیم اور چنیوٹ ڈیم اور بلوچستان میں چار دریائوں پر درمیانے ڈیمز کے منصوبے بھی واپڈا نے مکمل کرنے ہیں۔ سندھ میں منچھر ڈیم اور سیہون بیراج کا منصوبہ واپڈا کے ویژن 2025 ء میں شامل تھا جیسے اب ویژن 2050 ء میں سے نکال دیا گیا۔ اس ڈیم اور بیراج سے ضلع سانگھڑ، عمر کوٹ اور مٹھی کے تھر کو زرعی پانی مہیا ہوتا ہے۔ اس منصوبہ کو پس پشت ڈال کر ، صدیوں سے پانی کی پیاسی تھری عوام کے ساتھ بے انصافی کی گئی ہے لہٰذا منچھر ڈیم اور سیہون بیراج منصوبہ کو بحال کیا جائے۔دریائے سندھ پر انڈس ڈیلٹا میں کھارو چھان سے اوپر بہائو پر سپل وے یا بیراج کی تعمیر کی تجویز بھی دی ہے۔ سیہون ، بیراج، منچھر ڈیم اور کھارو چھان بیراج یا اسپل وے کی تعمیر شروع ہو گی تو عوام میں اعتماد بحال ہو گا اور کالا باغ ڈیم مخالفین کا پروپیگنڈا رد ہو گا۔ سندھ کے عوام کادیرینہ مطالبہ ہے کہ III ROBOD منصوبہ مکمل کر کے سیم کا زہر آلود پانی براہ راست سمندر میں ڈالا جائے۔ حکومت سندھ کو چاہئے کہ مذکورہ بالا منصوبہ جات کے متعلق وفاق کے ساتھ مکالمہ کرے۔ اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے معاملات مثلاً سندھ کے کوٹے کا پانی چشمہ بیراج کی بجائے سندھ کی حدود کے اندر گدو بیراج پر دیا جائے تاکہ پنجاب پر سندھ کے حصے کا پانی استعمال کرنے جیسے الزامات کی بنیاد ہی ختم ہو جائے۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا اکٹھ کریں اور سنجیدگی سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کریں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کالا باغ ڈیم سے ملک کے چاروں صوبوں کا مفاد وابستہ ہے۔ کالا باغ ڈیم سے ملک کے چاروں صوبوں کے عوام کو فائدہ ہو گا اور ملک کی معیشت نہ صرف بحال ہو گی بلکہ ترقی کرے گی۔ جب مفاد مشترک ہو تو یکجہتی پختہ ہوتی ہے۔ عوام کے بکھرنے کی منطق غلط ہے۔ حکومت ذمہ داری کامظاہرہ کرے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر پربامعنی پیش رفت کرے۔