حضرت علیؓ کے پاس ایک انتہائی عجیب وغریب مقدمہ آتاہے، بچہ ایک ہے اور دوخواتین دعویٰ دار ہیں اور بضد ہیں کہ یہ بچہ میرا ہے، دوسری عورت کہتی ہے کہ یہ بچہ میرا ہے۔عجیب کیفیت کا عالم ہے دونوں میں سے کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی بالآخرفیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس بچے کے دوٹکڑے کرکے آدھاآدھا دونوں عورتوں کو دے دیاجائے۔پھر ایک عورت کی ایسی چیخ نکلی کہ ماحول ہی بدل گیا اس نے کہا نہیں نہیں اس کومت کاٹنا یہ بچہ دوسری عورت کو دے دو۔اسے زندہ رہنے دو۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا مختلف نشیب وفراز دیکھے ،جمہوری حکومتیں بنتی دیکھیں، جمہوریت کے ساتھ مذاق ہوتے دیکھا۔جب جمہوریت میں بات حدسے بڑھتی اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ دیکھ کر پاکستان کی فوج کو مداخلت کرتے بھی دیکھا۔ 1938میں جاتی عمرہ سے لاہور آکرکاروبار شروع کرنے والے محنتی شخص کے بیٹوں کو پاکستان کے اندر تخت لاہور اور تخت اسلام آباد پربیٹھے دیکھاہے۔اسی گھر کو اسی کے چراغ سے آگ کے شعلوں میں بھی جلتے دیکھا ہے۔
بچپن میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا عروج اور پھر سقوط ڈھاکہ بھی ہوتے دیکھا ہے۔ حکمرانوں کی فیکٹریوں کو بچے دیتے ہوئے ملک کی تمام دولت کو سمیٹنے کی خواہش کے ساتھ جمہوریت کا لبادہ اُوڑھ کر طاقت کو ایک جگہ سمٹتے بھی دیکھا ہے۔خود جلاوطنی کاٹنے کے ساتھ حکمرانوں کو جلاوطن ہوتے دیکھا ہے۔ پاکستان کے دشمنوں سے دوستیاں کرتے دیکھاہے۔ پاکستان کے اندر دولت کے بل بوتے پر بہت سے کریمینل کرپٹ اور قبضہ گروپوں کو اسمبلیوں میں جاتے دیکھا ہے ۔پاکستان میں دونوںبڑی جماعتوں کو ایک دوسرے کو خدار، چور،ڈاکو،لیٹرا اورسرے محل کے قصے سناتے بھی دیکھا ہے۔ملک کی دولت لوٹ کر سوٹیزرلینڈ لے جانے اور دوسرے ممالک میں پاکستان کی دولت لوٹ کر لے جانے کے ایک دوسرے کو طعنے دیتے بھی دیکھا ہے۔پاکستان میں بھوک سے مرتے بچے دیکھے ہیں، دودھ کے پیسے نہ ہونے پر میاں بیوی کو زہرکھاتے دیکھا ہے۔میں نے خود جلال پور بھٹیاں میں بحیثیت وزِیر تین چھوٹی چھوٹی بچیوں اور ان کی ماں کی قبر پر پھول ڈالے ہیں۔ جو بھوک کی وجہ سے زہرکھاکے مرگئی تھیں۔
ماڈل ٹائون لاہور میں دورد وسلام پڑھنے والوں پر گولی چلتی دیکھی ہے ،ایک ماں کو چلتی گولیوں کے دوران یہ کہتے دیکھا ہے کہ میں حاملہ ہوں گولی نہ چلانا پھر اسی عورت کو منہ کے اندر گولی لگتے بھی دیکھا ہے۔اپنے آپ کو خادمِ اعلیٰ کہنے والے کے پڑوس میں دن دیہاڑے خون بہتے دیکھا ہے۔سٹرکوں پر اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں کبھی ساہیوال ،کبھی کراچی، کبھی راولپنڈی اور کبھی لاہور میں پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو بادامی باغ میں موٹرسائیکل نہ روکنے پر قتل ہوتے بھی دیکھا ہے۔تاجروں کو ملاوٹ کرتے ہوئے اور جعلی دوائیوں سے لوگوں کو مرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔اسمبلیوں اور ٹی وی پر ٹاک شوز میں بیٹھے اپنے لیڈروں کو جن پر نہ جانے کیاکیا الزام ہیں اُن کے دفاع میں چند دن کے اقتدار میں حدسے گزرتے بھی دیکھا ہے۔پیپلز پارٹی بنتے دیکھی ،ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین اور پھر اسلامی جمہوری پاکستان کا صدر بنتے بھی دیکھا ہے۔
میثاق جمہوریت ہوتے دیکھا اور زرداری صاحب کو صدر ہائوس سے پانچ سال پورے کرنے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں شائد پہلی مرتبہ بڑی شان وشوکت سے الوداع ہوتے دیکھا ہے۔میں نے پاکستان کے ایک بڑے لیڈر کے والد کی قبر اپنے ہاتھوں سے بناکر انہیں دنیا سے خالی ہاتھ جاتے دیکھا ہے۔حکمرانوں کو اقتدار کی ہوس میں پے درپے غلطیاں دہراتے دیکھا ہے۔23سال پہلے ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کو سیاسی جماعت بناتے دیکھا ہے۔پاکستان کی یوتھ اور ایلیٹ سوسائٹی اور جمہوریت کے زخم کھائے مایوس لوگوں اور دوسری جماعتوں سے نکل کرمختلف لیڈروں کو کپتان کو جوائن کرتے دیکھا ہے۔پاکستان میں کپتان کی حکومت بنتے دیکھی ہے۔ نااہل لوگوں کو امور مملکت سنبھالتے دیکھا ہے۔ پھر کپتان کو جرات کے ساتھ فیصلے کرتے بھی دیکھا ہے۔ مگر آج بھی بہت سی اہم سیٹوں پر نااہل لوگ براجمان ہیں۔حضرت علیؓسے کسی نے سوال کیا کہ آپ سے پہلے خلفاء کے زمانے میں تو یہ شورش نہیں تھی جو آپ کے زمانے میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اُن کا مشیر میں تھا اور میرے مشیرآپ ہیں۔پاکستان پر تجربے کرنا بندکرناہوںگے۔شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ میں زندگی میں دولوگوں کو ڈھونڈتا رہا مگر مجھے نہیں ملے جو صدقہ دیتا ہو اور اُس پر مصیبت آئی ہو مجھے نہیں ملا۔جس نے کسی پہ ظلم کیا ہو اور وہ بچ گیا ہو مجھے وہ بھی نہیں ملاسکا۔اللہ کے نبی ﷺ صحابہ کرام سے سوال کرتے ہیں کہ اللہ کو سب سے زیادہ کیا پسند ہے کسی نے کہا نماز کسی نے کہا روزہ، کسی نے کہا حج مگر آقاکریم ﷺنے فرمایا کہ نہیں محبت اور صرف محبت محبت۔!
کیا اسمبلیوں میں جو کچھ ہورہاہے جوزبان بولی جارہی ہے۔ دُنیا ہمیں مارنے کو کھڑی ہے اور ہم ایک دوسرے کا گربیان پکڑکرکھڑ ے ہیں۔اپنے ہی گھر کو آگ لگانے کی بات کرتے ہیں ،بلکہ اگر ہمیں اقتدار نہ ملے تو بالکل آگ لگانے کوتیار ہیں۔قوم کے اندر ایک دوسرے سے نفرت اور انتقام کی جو آگ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے اُسے بند ہوناچاہیے۔ذرا سوچیں کہ پاکستان آپ کے خاندانوں نے بنایاتھا تمام بڑی جماعتوں کے قائدین بتائیں کہ کس کا پاکستان پر کیا لگاہے۔محترم لیڈران کرام پاکستان بنانے والے اور تھے جودربدر ہیں۔
شکرکریں آپ کو اس بھولی بھالی قوم نے لیڈر مان لیا ۔پاکستان ہماری جنت ہے اس کی وجہ سے مائوں، بہنوں ،اور بیٹیوں کے سروں پر دوپٹے محفوظ ہیں۔جوکرپٹ لوگ ویسکوٹ پہن کر بڑے باوقار بن کر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بات کرتے ہیں یہ ساری عزت پاکستان کی وجہ سے ہے۔اور یہ اس ملک کی برکت ہے جہاں میرے جیسا کسان کا بیٹا پاکستان میں فلیگ کیئریر بن گیا۔مگر مجھے فخر ہے کہ میرے خاندان کا خون ہے پاکستان کی بنیادوں میں۔ذرا سوچو اگر پاکستان نہ ہوتا تو تم کسی ہندو بنیے کے جوتے پالش کررہے ہوتے۔جس شاخ پر بیٹھے ہو اسی کو کاٹ رہے ہو ، لوٹ ماربھی کرتے ہو ، اور اکڑتے بھی ہو۔اداروں پر انگلیاں اُٹھاتے ہو اگر ادارے تمہارے غلام ہوں تو اچھے ہیں ورگرنہ یہ !
اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرٹینکوں کے نیچے لیٹنے والے جب تمہیں اقتدار میں لاتے ہیں تو اچھے ہیں ورگرنہ وہ خلائی مخلوق ہیں۔ واہ رے واہ۔!وقت آگیاہے کہ
زہرکو امرت کہو نہ سانپ کو مور کہو
اس گھر کو بچانا ہے تو اب چور کو چورکہو
انسان کو توسبھی انساں کہتے ہیں
پر آدم خور کو تو آدم خورکہو
بہت ہوچکا صاحب ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ ہم کتنی عزت کے قابل ہیں۔
اب مہربانی کریں پاکستان اور پاکستانی قوم پرمعاف کردیں پاکستانی قوم کے بچوں کو جو تھرمیں بھوک سے مررہے ہیں۔معاف کردیں معاف کردیں۔قوم کی بربادی نہ کریں۔ اپنی زبانوں پر کنٹرول کریں۔ تم عقل کلُ نہیں ہو۔بہت لوٹ مارہوچکی اور آج پاکستان کی حالت یہ ہے کہ
کرن کرن کی جبیں سے ٹپک رہا ہے لہو
رخِ سحر ہے برُی طرح زخم کھائے ہوئے ہے
پاکستان کے زخموں پہ اگر مرہم نہیں رکھ سکتے تو نمک بھی نہ چھڑکیں۔پاکستان کا مسئلہ صاحب یا صاحبہ نہیں ہے پاکستان کی پرابلم زاور ہیں۔انہیں کون کس طرح حل کرتاہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔یاد رکھو اُس ماں کی طرح جو حضرت علی ؓکے دربار میں تھی اور چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اس بچے کے ٹکڑے نہ کرو ،اوراسے دوسری عورت کو دے دو۔کم ازکم یہ زندہ تو رہے گا۔! مگر میں بدقسمتی سے آج تک پاکستان پر لگے گہرے زخموں کو دیکھ کرمعذرت کے ساتھ یہ کہنے کی اجازت چاہتاہوں کہ …؎
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
یاد آج مجھے تم بے حساب آئے