اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اْن کیلئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اْس سے باخبر رہتا ہے۔( سورہ النور)
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حکم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کردیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو۔ حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کرلو اگر بالفرض نظر پڑجائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت جریر بن عبداللہ بجلیؓ نے حضور ؐسے اچانک نگاہ پڑجانے کی بابت پوچھا تو آپؐ نے فرمایا اپنی نگاہ فورا ہٹا لو۔ نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے۔ حضرت علیؓ سے آپؐ نے فرمایا۔ علیؓ نظر پر نظر نہ جماؤ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصدا معاف نہیں۔ حضورؐنے ایک مرتبہ فرمایا " راستوں پر بیٹھنے سے بچو "۔ لوگوں نے کہا حضور ؐکام کاج کیلئے وہ تو ضروری ہے۔ " آپؐ نے فرمایا اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو۔" انہوں نے کہا وہ کیا ؟ فرمایا " نیچی نگاہ رکھنا" عبیدہ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے، اس لئے شرمگاہ کو بچانے کیلئے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے۔ اور ان کے دل بھی نورانی کردیتا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں جس کی نظر کسی عورت کے حسن وجمال پر پڑجائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے۔طبرانی میں ہے کہ یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کروگے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا۔نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے، اللہ اس کے دل کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ حضورؐفرماتے ہیں آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا بولنا ہے۔ کانوں کا زنا سننا ہے۔ ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے۔ پیروں کا زنا چلنا ہے۔ دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے۔ (رواہ البخاری تعلیقا) اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے۔ اکثر آئمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے۔ رسول اللہؐ فرماتے ہیں ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے۔ گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو۔ کرونا کی وبا بے حیائی کی وجہ سے پھیلی لیکن پہلا نشانہ تبلیغی جماعت اور زائرین بنے اور بے حیائی کا یہ سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔بے حیائی سے پھیلی وباء کا زیادہ شکار مردہوئے۔با حیاکرونا نے مردوں کو بھی نقاب پہنا دئیے۔ بے حیائی پھیلانے کی ذمہ دار عورت ہی نہیں مرد بھی ذمہ دار ہے۔حیا عورت کا زیور اور مرد کی غیرت ہے۔ بے حیا مرد بھی معاشروں کے بگاڑ کا ناسور ہیں۔ عورت کی حیا پردہ پر مرد بھی بہت بولتے اور لکھتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ جس کلام مقدس میں عورت کی حیا اور حجاب کا ذکر ہے اسی کتاب مقدس میں مرد کی شرم و حیا کا بھی حکم صادر ہے۔ نبی کریمؐ نے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں شرم وحیا نہیں، گویا اس میں ایمان نہیں۔ بے شرم انسان، ہرذلت وپستی میں گرنے کیلئے ہروقت آمادہ وتیار رہتا ہے جبکہ باشرم وحیادار انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے تمام مشکلات کے باوجوداپنے شرفِ انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی اکرمؐ کا اخلاق وکردار ہرپیمانے سے منفرد، بے مثال اور قابلِ تقلید ہے۔ آپؐ میں تمام فضائل حسنہ بدرجہ اتم واعلیٰ موجود تھے اور شرم وحیا کی صفت بھی اتنی نمایاں تھی کہ صحابہ کرامؓ آپؐ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ آپؐ اعلیٰ خاندان کی پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ (صحیح مسلم)
امِ معبد عرب کی ایک بدوی خاتون تھیں۔ آنحضورؐہجرت کے سفر میں اس کے خیمے میں مختصر وقت کیلئے رکے تھے۔ اس نے آنحضورؐکا جو دل نشین حلیہ بیان فرمایا تھا، اس میں آپؐ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ آپؐ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی غیرمحرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ حضرت فضل بن عباسؓ آپؐ کے چچا زادبھائی اور محبوب تھے۔ ایک مرتبہ وہ حج کے سفرمیں آپؐ کی سواری پر آپؐ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب ایک مقام پر کچھ عورتیں آپؐ سے سوال پوچھنے لگیں تو حضرت فضلؓ کی نظریں ان کی طرف اْٹھ گئیں۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ سے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔ (تفہیم القرآن)آپؐ کا ارشاد ہے ’’اللہ جب کسی بندے کی ہلاکت کافیصلہ کرتا ہے تو اسے حیاسے محروم کردیتا ہے‘‘۔ آپؐ کے صحابہؓ میں بھی اسلام اور سنت رسولؐ کی برکات سے شرم وحیا کی اعلیٰ صفات پروان چڑھیں۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفانؓ کایہ اعزاز تمام صحابہؓ میں ممتاز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ شرم وحیا کا پتلا تھے، ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ زندگی بھر انہوں نے اپنا جسم ننگا نہیں ہونے دیا۔ غسل کے وقت بھی وہ اپنا ستر کسی کپڑے سے ڈھانپنے کا اہتمام کرتے تھے۔نبی اکرمؐ نے اسی لئے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے بھی عثمانؓ سے حیا کرتے ہیں۔ حیا کی ایک تو مخصوص شکل اور تعریف ہے جو عموماً لوگ سمجھتے ہیں مگر ایک اور مفہوم بھی آپؐ نے امت کے سامنے بیان فرمایا۔ آپؐ نے صحابہؓ سے کہا: ’’اللہ سے حیا کرو جیسا کہ حیا کرنے کا حق ہے‘‘۔ یہ مکمل حدیث حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی زبانی یوں روایت ہوئی ہے:
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہؐ نے حاضرین مجلس سے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیاکرو اور پوری طرح حیاجیسے اس سے حیاکرنے کا حق ہے۔ اہلِ مجلس نے بیک زبان کہا: اے اللہ کے نبیؐ خدا کا شکر ہے کہ ہم تو اللہ سے حیاکرتے ہیں۔ حضورؐ نے یہ جواب سن کر فرمایا:اللہ سے حیا کرنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اللہ سے حیا کرنے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ:آدمی سر کی حفاظت کرے اور دماغ میں آنے والے خیالات کی بھی نگرانی کرتا رہے، پیٹ کے اندر جانے والی غذا کی نگرانی کرے (یعنی حلال کھائے اور حلال پئے) نیز شرم گاہ کی حفاظت کرے (یعنی بدکاری سے بچے)۔ موت کو اور موت کے بعد گل سڑ جانے کو یاد رکھے۔ جو آدمی آخرت کا طالب ہو، وہ دنیا کی زیب وزینت ترک کردیتا ہے یعنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے۔ پھر حضورؐنے فرمایا:جس نے یہ کام کر لئے، اس نے گویا اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حق ادا کردیا۔ (ترمذی)