ٹریڈ یونیز کے قیام کا مقصد مزدور طبقہ کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے اگرچہ ملک میں ٹریڈ یوینز کا آغاز تو ایوبی دور میں ہی ہو گیا تھا لیکن انہیں اس طرح کی آزادی حاصل نہیں تھی جس طرح کی آزادی مرحوم بھٹو نے اپنے دورمیں ٹریڈ یونیز کو دی تھی سرکاری محکموں میں تو ٹریڈ یونیز کا تو تصور نہیں کیا جا سکتا البتہ ٹریڈ یونیز نیم سرکاری اداروں اور کارپویشنز میں بنائی جا سکتی ہیں۔بھٹو دورمیں جہاں ٹریڈ یونیز کی سرگرمیاں عروج پر تھیں وہاں سٹوڈنٹس کو بھی اپنی یونیز بنانے کی آزادی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ ان یونیز نے آزادی کا غلط استعمال شروع کر دیا ۔ہمیں یاد ہے ستر کی دہائی میں جب ایوب خان کے خلاف طلبہ نے تحریک شروع کی تو ملک میں جلسے اور جلوسوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایوب خان کے خلا ف جہاں نعری بازی کی جاتی لیکن اس کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ جس میں جی ٹی ایس کی بسوں کو بھی خاکستر کر دیا جاتا ۔ وقت گذرنے کے ساتھ جی ٹی ایس کے ملازمین کی یوینز نے محکمہ کی تباہی میںاہم کردار ادا کیا طلبہ نے بسوں کا جلانے کے ساتھ بغیر ٹکٹ سفر کو اپنا حق سمجھاتے ہوئے سفر کرنا شروع کر دیا بالاآخر محکمہ ہی ختم ہو گیا۔جب ہم سرگودھا بورڈ میںملازمت کرتے تھے تو بورڈ کی یوینز نے اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال کر دی اس دوران سردگوھا میں واپڈا اور دیگر کارپوریشنزکے ملازمین نے بھی ہڑتال کی حمایت میں جلسے اور جلوسوں کا آغاز کر دیا جب ہڑتال طویل ہو گئی تو لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے جج جسٹس شفیع الرحمن نے بورڈز یوینز پر پابندی عائد کر دی جو آج تک برقرار ہے اس طرح طلبہ یوینز کی منفی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے بھی طلبہ یوینز پر بابندی لگا دی جو ابھی تک برقرار ہے. دنیا کروناء وائرس سے نبروآزماء ہے ہماراغریب ملک بھی کرونا ء کی زد میںہے ساری حکومتی مشینری کروناء کے سدباب کے لئے مصروف عمل ہے لیکن ایک خبر نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی ٹریڈ یونین نے اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال کرنے کا اعلا ن کر دیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک مشکلات میں گھیرا ہے یونین کو ہڑتال کی سوجھی ہے۔حکومت نے ماہ مقدس کے پیش نظر اور رمضان بازاروں کی عدم موجودگی کے باعث اشیائے خوردونوش عوام کو سستی فراہم کرنے کے لئے اربوں روپے کی سبسٹدی دی ہے تاکہ یوٹیلٹی سٹورز سے عوام کو سستے داموں ضروریات زندگی کی چیزیں باآسانی مل سکیں لیکن بجائے عوام کو آسانی مہیا کرنے کے ملازمین کی یونین نے ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ملک میں لاک ڈون ہونے کی وجہ سے کارخانوں میں کام کرنے والے اور عام مزدور طبقہ پہلے ہی بے روزگار ہو چکا ہے لہذا مشکلات میں گھیری عوام اور حکومت کے ساتھ تعاون کی بجائے کارپوریشن کے ملازمین کا ہڑتالوں کی دھمکی دینا سمجھ سے بالاتر ہے ان ملازمین کے مطالبات کیا ہیں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین کو ریگولر کیا جائے۔تنخواہوں کو دوگنا کیا جائے وغیرہ۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جو ملازمین یومیہ اجرت پر کام کررہے ہیں انہیں مستقل بنیادوں پر ملازمت دی جائے تاہم تنخواہوں کو دوگنا کرنے کا مطالبہ تعجب خیز ہے اس وقت ملک کے جن جن اداروں میں ٹریڈ یوینز ہیں ان کا حال سب کے سامنے ہے پاکستان ریلویز جس پر سفر کرتے ہوئے رشک آتا تھا آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ٹریڈ یونیز نے اپنے اپنے خاندان کے افراد کو یوینز کے بل بوتے پر ملازمت دلا کر ریلویز کا ستیاناس کر دیا ہے پی آئی اے کو ہی دیکھ لیں کبھی دوسرے ملکوں کی ائرلائنز کے ملازمین ہمارے ہاں تربیت کے حصول کے لئے آیا کرتے تھے آج وہ ملک جن کے ملازمین یہاں آکر تربیت لیا کرتے تھے ان کی ائرلائنز اربوں کما کر حکومت کو دے رہی ہیں لیکن نیشنل کیریئر پی آئی اے کو ہر سال حکومت کو بیل آوٹ پکیج دینا پڑتا ہے پاکستان اسٹیل ملز جو بھٹو دور کی یادگار ہے کبھی ملک کو کما کر دیا کرتی تھی لیکن ٹریڈ یونیز نے پاکستان اسٹیل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے وہاں کام کرنے والے ملازمین تنخواہوں کے انتظار میں حکومت کے بیل آوٹ پکیج کے منتظر ہوتے ہیں۔ہمیں یاد ہے ایک دور میں اسٹیل ملز کے چیئرمین لفٹینٹ جنرل صبیح قمرالزمان ہوا کرتے تھے جب ٹریڈ یوینز والوں نے ہڑتال کی تو انہوں نے گن گن کر کام نہ کرنے والے ملازمین کو ملازمت سے برطرف کیا جس کے کافی عرصہ بعد تک اسٹیل ملز میں امن وامان رہا بلکہ ادارہ کم ازکم خسارے میں تو نہیں تھا لیکن اب تو پاکستان اسٹیل خستہ حال ہو چکی ہے اگر یہ نہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ ملک کے بڑے بڑے اداروں کی تباہی میں ٹریڈ یونینز کا اہم کردار ہے ہونا تو یہ چاہییے تھا کہ ٹریڈ یونینز کے عہدے داران اداروں کی ترقی میں انتظامیہ کا ہاتھ بٹاتے لیکن ان لوگوں نے اپنے اپنے اداوں کے مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جس کے تنیجہ میں آج یہ بڑے بڑے ادارے بجائے نفع بخش ہونے کے خسارے میں ہیں ان حالات میں ملکی اداروں کو بچانے کا ایک واحد حل یہی ہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد ریلویز ، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کے معاملات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ان بڑے بڑے اداروں میں ٹریڈ یونینز پر پابندی عائد کردیں ۔اگران اداروں میں یونیز کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جائے تو ہمیں یقین ہے کہ یہ بڑے ادارے جہاں خسارے میں جا رہے ہیںمستقبل قریب میں نفع بخش بن سکتے ہیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ چیف جسٹس ذی وقار ملک مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹریڈ یونیز کے معاملات کا از سر نو جائزہ لیں گے۔