بھارتی مسلمانوں کو قرنطینہ میں علاج کی بجائے قید کردیا جاتا ہے

Apr 28, 2020

اسلام آباد ( خبرنگار خصوصی ) بھارتی مسلمانوں کا قرنطینہ سینٹروں میں علاج نہیں کیا جا رہا بلکہ انھیں وہاں منتقل کرنے کے بعد قید کر دیا جاتا ہے۔ بھارت کے زیادہ تر حصوں میں قرنطینہ سینٹر بھی مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوئوں کے قرنطینہ مراکز علیحدہ ہیں اور وہاں دی جانے والی سہولیات میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ قرنطینہ کئے گئے مسلمانوں کے سیمپل لئے جا رہے ہیں اور نہ ہی ان کے کرونا پازیٹیو یا نیگیٹیو ہونے کی کوئی خبر سامنے آ رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق قرنطینہ کئے جانے کی مدت 14 روز ہوتی ہے، 14 روز میں واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے کہ مریض کرونا وائرس سے متاثر ہوا ہے یا نہیں مگر بھارت میں قرنطینہ کئے جانے والے تبلیغی مسلمانوں کے حوالے سے 28 روز گزر جانے کے بعد بھی کچھ پتا نہیں چل رہا۔ اب مجبوراً دہلی کے اقلیتی کمیشن نے مودی سرکار کے وزیر صحت کو خط لکھا ہے کہ نظام الدین کے تبلیغی مرکز سے جبراً قرنطینہ میں منتقل کئے گئے لوگوں کو 28 دن گزر چکے ہیں، میڈیا اور بھارتی عوام کو بتایا جائے کہ ان لوگوں کا اب کیا سٹیٹس ہے۔ بھارت میں یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ان بھارتی مسلمانوں میں سے کچھ ناقص سہولیات کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جب ان کے اہل خانہ ان کی صحت بارے استفسار کرتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ خاموش رہو ورنہ تم لوگوں کو بھی قرنطینہ میں پھینک دیا جائے گا۔ اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اور ممبر کرتار سنگھ نے کہا ہے کہ اب ایسے تمام افراد جنہوں نے ان کیمپوں میں 28 دن گزار لیے ہیں اور جن کا ٹیسٹ نیگیٹو آیا ہے ان کو اجازت دے دی جائے، دہلی کے کرونا قرنطینہ کیمپوں ، سلطانپوری، وزیرآباد وغیرہ میں ہزاروں ایسے قیدی موجود ہیں لیکن انھیں خوراک و طبی دیکھ بھال کی فراہمی قابل اطمینان نہیں ہے کمیشن نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ ان کیمپوں میں وفات پا چکے ہیں لیکن ان کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا جا رہا۔

مزیدخبریں