نصاب تعلیم ایک بار پھر سازشوں کی زد میں 

دیار کفر اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتا ہے کہ اگر ظہور اسلام ہو گا تو وہ اسی پاک خطہ عظیم سے ہو گا, لہٰذا اگر اس خطے کے بسنے والوں کو اسلامیایا گیا تعلیمی نصاب مہیا کرنے کے رستے ہموار ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کا یہ اندیشہ اٹل حقیقت بننے سے نہیں روک سکتی - یہی وجہ ہے کہ صیہونی طاقتوں نے کئی  صدیوں سے مسلم دنیا میں تعلیمی شعور کو پنپنے نہیں دیا - یہ شعور جس کا ممبح حقیقتاً وہ نظام تعلیم ہے جسے اسلام کے بنیادی اصول و معلومات کی پکی مٹی سے گھڑا جاتا ہے  دشمنان اسلام کے لئے یہ وہ اذلی خطرہ ہے جسے وہ اپنی گہری شیطانی سازشوں سے ٹالتے آئے ہیں۔ 
خلافت عثمانیہ کو تہہ و تیغ کرنے کے لئے کی گنی گھناؤنی سازشوں کا پیچیدہ جال ہو یا پھر مسلم دنیا کومغربی رنگ میں رنگے جانے کی مسلسل دجالی کاروائی، اور یا پھر1947 سے بھی قبل نافذ شدہ لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام،  یہ سب ایک ہی  '  بڑے منصوبے' کی چیدہ چیدہ اکائیاں ہیں -  وطن عزیز کی 72 سالہ محدود تاریخ کا  جائزہ لیں تو تعجب ہوتا ہے کہ 72 برس گزر جانے کے بعد بھی اس قوم کو انکی قومی و دینی امنگوں کی ترجمانی کرنے والا تعلیمی نظام نہ دیا جا سکا۔ پاکستان کے پہلے دور حکومت سے ہی شعبہء تعلیم کو اہم نہ گردانا گیا۔ 1956 تک تو قرارداد مقاصد پر ہی بحث مباحثہ چلتا رہا اور پھر اللہ اللہ کر کے کہیں پاکستان کا پہلا قانونی مسودہ تشکیل پا سکا - پھر وہی ہوا جس کے لئے انگریز برسوں پہلے بیج بو کر جاچکا تھا، یعنی مسلسل ایک پست ذہن نام نہاد  لیڈران کی بے قیمت کھیپ نکلتی رہی جو دولت کے زور پر آکسفورڈ, کیمرج اور ہارورڈ سے تعلیم حاصل کر کے آتی رہی - بجائے اس کے کہ یہ اعلی تعلیم یافتہ وڈیران پاکستان کے نظام تعلیم کو اس کے حقیقی تقاضوں کے ساتھ جدید خطوط پر استوار کرکے تعلیمی انقلاب برپا کرتے, انہوں نے اسے مزید زوال پذیری کے اندھیرے میں دھکیل دیا. یہ فارن کوالیفائڈ افراد قومی تشخص و ترقی, نظریاتی فروغ  اور اسلامی اقدار کی ناموری کسی بھی حوالے سے اپنی یہ اہم ترین ذمہ داری نبھانے سے نہ صرف قاصر رہے بلکہ مغربی نظام تعلیم سے متاثر  قیس مغرب بن کر کشکول تھامے مغربی ایجنڈے کو فروغ دیتے رہے ۔ نصاب تعلیم کی نئے سرے سے اوور ہالنگ کے لئے کی جانے والی  حالیہ حکومتی کوششوں کو پھر سے ناکام بنا دینے کی گھناؤنی سازشوں نے نہایت شدت سے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے- اسلامی نظریاتی مملکت خداداد پاکستان کا نظریاتی تشخص دراصل اس کے تعلیمی نظام سے ہی منسلک ہے۔ اب تک غیر ملکی ایجنڈے پے پنپنے والا کمزور تعلیمی نظام آ ج تک اس ملک کو اس کی اصل شناخت نہ دے سکا  ان دونوں اکائیوں کے بیچ موجود یہ درمیانی فاصلہ اتفاقاً نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رکھا گیا، اور یہی کوشش آج کل بھی زور و شور سے جاری ہے سپریم کورٹ کی 2014 کی دی   گی   ہدایات کے مطابق غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف نصابات میں موجود کسی بھی قسم کا مواد حذف کرنے کا حکم نامہ جاری ہوا, باوجود اسکے کہ شاذ ہی ایسا کوئی قابل اعتراض مواد موجود تھا - اس حکم نامے کے عین مطابق نصابات کی اصلاح بخوبی کی جا چکی ہے۔ اصولاً یہ معاملہ یہیں ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر اس کے پیچھے سرگرم لابی اگلے سے اگلا محاذ کھولے جارہی ہے. دراصل معاملہ اقلیتوں  کے تعلیمی حقوق کی پامالی کا نہیں بلکہ اس کی آڑ میں پاکستان کی 97-98  فیصد اکثریت کو ان کے تعلیمی و نظریاتی مقاصد کے حصول میں ناکام بنانا ہے-اقلیتی ہیومن رائٹس کی آ ڑ میں یہی لابی ایک بار پھر اس قوم کی آگے آنیوا لی نسلوں کی تقدیر سے پیشگی کھلواڑ کا مضبوط ارادہ رکھتی ہے -
اقلیتی حقوق کمیشن, ہیومن رائٹس کی آڑ میں مسلم اکثریتی حقوق کو پس پشت ڈال کر تعلیمی نصابات کو قومی نظریاتی روح سے مکمل طورپر عاری کرنے کے ایجنڈے پر عمل درآمد کا بھرپور طریقے سے ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں اور افراء تفری کا ماحول بناتے ہوئے پاکستانی اربابِ اختیار سے عجلت میں فیصلے کروانے کی انتھک کوشش کی جا رہی ہے۔  اس سلسلے میں پنجاب میں صرف جاوید سڈل پے مشتمل یک رکنی کمشن بنا کر اس ایجنڈے کی فوری تکمیل، کیا کسی بھی زاویے سے انصاف پہ مبنی کاروائی ہے! ذمہ دار افراد کو ہوش کے ناخن لینے کی اشد ضرورت ہے. انھیں چاہیے کہ شعور کی آ نکھ سے اس مسئلے کو جانچیں اور ان بے وزن مطالبات کو حقائق کی کسوٹی پے پرکھیں کہ اسلامی جمہوریہء پاکستان کے نصابات سے اللہ، رسولؐ، اور دیگر اہم  اسلامی معلومات کو نکالنا کیا معنی رکھتا ہے۔ ایسا سوچنا بھی دراصل اس مملکت کے وجود سے انکار کے مترادف ہے۔ قانون کی متعلقہ شکیں اٹھا کر دیکھیں تو انھیں اپنا قبلہ درست کرنے میں ضرور آ سانی محسوس ہو گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی آزاد ریاست کے تعلیمی نصابات اور تدریسی مواد سے اس ملک کی تاریخی, نظریاتی, اخلاقی،  ثقافتی، مذہبی، اور قومی تشخص منعکس نہ ہوتا ہو۔  یہ بھی کس طرح قابلِ قبول ہو سکتا ہے کہ کسی ملک میں بسنے والی اکثریت ہندو, عیسائی, یہود، پارسی یا سکھ ہو اور انکی درسی کتب میں محمد, احمد, حامد,  خدیجہ, آمنہ, طاہرہ جیسے کرداروں کو کہانیوں میں زیر بحث لایا گیا ہو - یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی ملک کا قومی و مذہبی  لباس, اقدار و روایات انہی مذاہب سے مطابقت رکھتے ہوں لیکن اس کے برعکس ان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاء جانے والی کتب اپنے طلباء میں ان کے قومی و مذہبی مواد کے بجائے اسلامی شعار, روایات و عبادات کے متعلق شعور منتقل کرتی ہوں  اگر غیر مسلم ریاستوں میں یہ قابل عمل اور ممکن نہیں  تو ایک اسلامی ریاست میں اس کے اپنے افکار و نظریات کے برعکس تعلیمی حاصلات کی بنیاد رکھنا کیونکر ایک دانشمندانہ فیصلہ  ہوگا؟ ہاں لیکن اس اصول کے برعکس پاکستانی سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں درسی کتب کے ذریعے پاکستانی طلباء کے ساتھ ضرور یہ کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے۔ 
 اقلیتی حقوق اور ہیومن رائٹس کی آ ڑ میں یہ غیر فطری مطالبہ کئی برسوں سے کیا جاتا رہا ہے. ایک بار پھر اس کے ذریعے اغیار کا پرانا دیرینہ خواب برائے زوال اسلام پورا کرنے کی مذموم کاوش کو خدانخواستہ ملکی تاریخ کے بہت اہم مگر غیر منصفانہ فیصلے کی طرف زبردستی دھکیلا جا رہا ہے -  ہم چاند ستارے والے پرچم کے سائے میں بسنے والی ایک قوم طلوعِ اسلام اور فروغ ارکان اسلام کی طرف فیصلہ کن اور مدلل پیش رفت چاہتے ہیں - ہم اپنے اقلیتی ہم وطنوں سے بھی اظہار محبت کرتے ہیں اور پہلے کی طرح اب بھی ان کے ساتھ ان کے جائز حقوق کے حصول کے لئے کھڑے ہیں - ہم ان نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کی پاکستانی نظام تعلیم کی بہتری کا عمل روکنے کے لئے کیے جانے والے مجرمانہ اقدام کے خلاف ایک قوم کی طرح متحد ہیں، اور ان سازشوں کی بیخ کنی کے شدت سے منتظر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن