ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کیوں نہیں کرتے

کچھ دوستوں نے سوچا آئو سکھ علاقے میں  تبلیغ کرنے چلیں ۔شائد سکھ تبلیغ سے مسلمان ہو جائیں ایک  روز سکھوں کے پاس تبلیغ   کے لئے حاضر ہوئے  اور ان کو  پیاری پیاری باتیں بتائیں ۔سب نے انہیں غور سے سنا ۔کہا آپ نے بہت پیاری باتیں بتائی ہیں لیکن یہ باتیں آپ میں کیوں دکھائی نہیں دیتی ۔ کل ہم اکھٹے سکھوں اور مسلمانوں کی دکانوں پر جائیں گے۔ ان کے ترازو اور اشیا خردنوش کو چیک کریں گے جن دکانوں میں ناپ تول کا نظام  ٹھیک ہوا  اور ان کی اشیا میں ملاوٹ  نہ ہوئی جو جھوٹ نہ بولتے ہوں  ۔ایسے دکانداروں کی تعدا جن کی زیادہ  ہوئی توپھر ہم سب اس کے مذہب میں شامل ہونے کے پابند ہونگے  بولیں منظور ہے ؟یہ سن کر ہم خاموشی سے وہاں سے چل دئے  ۔ جاتے جاتے  سکھوں نے کہا بہتر یہی ہے آپ اپنوں کو ہی تبلیغ کیا کریں جو اسلام سے بہت دور  ہیں۔ ہم اسلام کی باتیں کرتے ہیں ،عبادات کرتے ہیں مگر ویسا نہیں کرتے جیسا اسلام کرنے کو بتاتا ہے ۔ ابھی حال ہی میں جو کچھ اسلام کے نام پر ہوا  یا ماضی میں بھی اسلام کے نام پر  کچھ مذہبی  جماعتیں کرتی رہی  تھی کیا یہی اسلام ہے !  سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے یا سر فخر سے بلند ہونا چاہیے۔اس کا جواب غصے سے نہیں ،  خدا کو سامنے رکھتے ہوئے آپ خود دیں جنھوں نے جلوس نکالے سڑکیں بلاک کی ، گاڑیاں جلا دیں ۔ سرکاری اور پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچایا ۔اپنے جیسے مسلمانوں پر ڈنڈے برسائے،اپنے ہی مسلم بھائیوں کوجان  سے مارتے رہے ۔دوسری طرف پولیس مین  ملزم کے پلاس سے ناخن کھنچتے رہے ۔ان پرگولیاں برساتے رہے ۔زمین پر لٹا کر چترول کر تے  رہے ایسا کر کے اسلام کا نام روشن ہوا یابدنام ؟جنھوں نے تین روز تک جینا دوبھر کئے رکھا ۔اس لئے   کہ حکومت نے ابھی تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیوں نہیں کیا۔اس کا ہمیں غصہ ہے  یہ جو کچھ مار دھاڑ جلائو گھیرائوں ہم نے کیا یہ ہمارے غصے کا اظہار تھا ۔ کیاہم عاشق رسول ہیں؟وہاں ایک گورا بھی کھڑا تھا جو سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔ گورے نے کہا میں  بھی مسلمان ہوں ۔ آپ مجھے بتائیں جس نے توہین کی ہے کیا اسے پاکستان کی سڑکوں پر کسی نے دیکھا تھا کیا اسے کسی نے کار بس ٹرک میں سوار دیکھا تھا  جس کی وجہ سے آپ نے روڈ اور ٹریفک بلاک کر دی ۔ گاڑیوں کو جلا دیا کہا مارنے والے بھی مسلمان  اور مرنے والے بھی مسلمان تھے جبکہ اسلام کہتا ہے تمام مسلمان آپس میںبھائی بھائی ہیں،پھر آپ نے اپنے بھائیوں کا خون کیوں کیا؟ ان کی گاڑیاں ان کی جائدادوں کو کیوں  جلا نا ضروری سمجھا جبکہ وہ  تو سب مسلمانوں کی مالکیت تھیں ۔ غصہ فرانس پر اور جانی و مالی نقصان آپ نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا کیا ؟ گورے نے کہا اگر تم   عاشق رسول ہوتے تو امت پر یوں ظلم نہ کرتے ۔ مسلمانوں کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ۔ایمبولنس کو راستہ دیتے ۔ آپ فرانس کی چیزوں کا بائیکاٹ کر تے؟کیا یہ سچ نہیں کہ یہ  سب کچھ لوٹ مار کرنے  اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے کیا گیا۔گورے نے کہا  جو کچھ جس نے کیا اس کا ہو سکتا ہے یہاں حساب نہ ہو لیکن آخرت میں ان کا ضرور حساب ہو گا ۔ گورے سے پوچھا یہ آپکو کیسے معلوم ہے کہا میں پیدائشی نہیں پڑھ کرمسلمان ہوا ہوں ۔میں سمجھتا ہوں ایسا کر کے آپ خود توہین کے مرتکب ہوئے ہیں ۔  آپ کویہ کیوں بتانا پڑتا ہے کہ ہم عاشق رسول ہیں اس لئے کہ آپ کا کردار اس کی گواہی نہیں دیتا  ۔ آپ کالی بلی سے تو ڈرتے ہیں مگر اپنے کرتوتوں سے نہیں ڈرتے ۔کاش پتہ ہو کہ   ننگے پائوں چلنے سے نہیں  اطاعت رسول سے عزتیں ملا کرتی ہیں ۔سنا تھا لوگ مذہب کیلئے لوگ لڑتے ہیں ،جھگڑتے ہیں اور اس کی خاطر مر تے ہیں لیکن  مذہب کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔ سوائے بد نامی کے اپنے ملک کی معاشی حالت خراب کرنے اور مخلوق خدا کو پریشان کرنے کے سوا کسی کو کچھ حا صل نہیں ہوا۔ کہا جاتا ہے سڑکوں پر انسانی خون اس وقت پانی کی طرح بہنا شروع کرتا ہے جب اور ڈوز سیاست کی ہو جائے جن ممالک میں سیاست  اور مذہب میں اور ڈوز ہو جا تی ہیں  وہاں لوگوں کی نہ جان محفوظ  اور نہ ان کا مال محفوظ  رہتا ہے ۔ مولانا ،قاضی ،مفتی جن کا کام انسانوں کو مذہب کے بارے میں بتانا   ہے  اگر  مساجد اور اپنے اپنے فورم پر چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری باتیں بتا تے رہتے تو  مساجد میں لوگ لوٹوں ،  گلاس اور جوتوں کے چوری کے  ڈر سے تالے لگا کر نمازیں نہ پڑھ رہے ہوتے ۔ڈپٹی اٹارنی جنرل چوہدری اشتیاق مہربان   نے بتایا رمضان کی ایک رات کو ایچ الیون قبرستان کی جنازہ گاہ  میں کئی افراد کی جیب کٹ گئیں اورکئی بچارے موبائل فون سے ہاتھ دھو بیٹھے۔خدا خوفی نہیں! جنازے کا احترام ہے نہ ریاست کا ڈر نہیں ۔اس کا ذکر جب اپنے دوست ا ظہیر الدین عثمانی سے کیا توکہا   پہلے یہاں مردے کے کفن اتارا کر بیچتے   تھے اب مردے کے اعضا اور ہڈیاں فروخت ہوتی ہیں ۔مرنے کے بعد بھی مردے محفوظ نہیں رہے ۔ بتا یا کہ دو ہزار چودہ میں دو بھائی قبروں سے  انسانی گوشت نکال کر لاتے اور کھاتے ہوئے پکڑے گئے۔ مقدمہ چلا ۔عدالت نے  جرم ثابت ہونے پر انہیں  ایک سال کی سزا دی۔ایسا  اس لئے کہ تعزیرات پاکستان   کی سیکشن  297   کے مطابق قبر کو نقصان کی سزا تو ہے لیکن انسانی گوشت کے کھانے کی کوئی سزا نہیں ۔ سزا کے بعد لوگ  گستاخوں کو جان سے مارنے کیلئے تو تیار ہیں مگر انہیں کھانا دینے  اور ان کا دماغی علاج کرانے کو کوئی تیار نہیں۔ اگر یہ مدینے کی ریاست ہوتی تو اس گورنر ،چیف منسٹر ، کور کمانڈر ،منسٹر ،ایم این اے ، ایم پی اے ، ڈسی سی ، اے سی کو   قید کر چکے ہوتے  ان کی جائیداوں کا حساب لے رہے ہوتے   کہ آپ نے ان کی بھوک کا خیال کیوں نہیں رکھا؟  کون بتائے کہ جج کا کام صرف سزائیں دینا نہیں انسانیت کی خدمت بھی ہے۔اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کو ترجمے کے ساتھ پڑھا اور سمجھا جائے تاکہ  ہم سچے مسلمان بن سکیں۔ 

ای پیپر دی نیشن