امام علی ؑسے پوچھا گیا کس طرح پتہ چلے گا کہ انسان کی قدروقیمت کیا ہے؟ امیر المومینؑ نے جواب مر حمت فرمایا ,,جس انسان میں احساس زیادہ ہوگا اس کی قیمت بھی زیادہ ہوگی اور قدر بھی… یہ احساس کی کشش ہی ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیتی ہے۔ گویا انسان اور احساس لازم وملزوم کی ریشمی دوری میں بندھے ہوئے ہیں۔ جب آپ خدمت انسانیہ میں خود کو مصروف اور مشغول کر لیتے ہیں تو احساس آپ کی شخصیت کا مظہر اور تعارف بن جاتا ہے اس لیے اس شخصیت‘ اس خاندان اور اس معاشرے کے لیے ’’بانجھ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو احساس کی دولت وسرمایہ سے خالی یا دور ہوں۔ احساس اور خدمت کی بدولت انسان مقام رشک اور معاشرے مقام عروج تک پہنچتا ہے ۔ امام زین العابدینؓ کا فرمان ہے کہ اگر بندوں کو خدمت انسانیہ سے ملنے والے اجر کی حقیقت معلوم ہو جائے تو لوگ اس اجر اور صلے کو پانے کے لیے آپس میں مسابقت (مقابلہ) کریں یہی خیال اور عقیدہ شاعر مشرق ؒنے بیان کیا تھا۔
خدا کے بندے تو ہزاروں ہیں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
احساس کی دولت کے ساتھ خدمت خلق کی روشنی شامل ہو جائے تو حیات دوسری زندگیوں کو چراغ تقسیم کرتی رہے گا، یہی احساس فرد کو پہلے احباب اور پھر کارواں کا روپ دے دیتی ہے کوئی ایک ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے جب اللہ کریم نے ہماری الھادی ویلفیئر اینڈ یوتھ فورم کا آئیڈیا بخشا ،ماشاء اللہ آج ہمارے دستر خوان کی بہاریں دلوں کو اطمینان اور آسودگی کی ٹھنڈی ہوائیں بخش رہی ہیں ۔دوبرس سے ہمارے رمضان دستر خواں نے عزت وتکریم کے جو انعامات عطا کئے ان کا اظہار لفظوں میں ناممکن ہے ۔مجروح سلطان پوری یاد آگئے
میں اکیلا ہی چلا جاتا تھا جانب منزل
لوگ ملتے رہے کا رواں بنتا گیا
اللہ کریم ہمارے نیک اعمال میں اور توقعات میں اضافہ کرے ۔ماضی قرب میں کئی بار دسترخواں جاری کرنے اور پھر جاری رکھنے کی راہ میں رکاوٹوں کا احساس جانگزیں ہوا لیکن پھر یہ بات حوصلہ دے گئی کہ خیر‘ بھلائی اور خدمت کے منصوبوں کے پس پردہ مالک کائنات اور سرور کائناتؐ کی عنایات شامل ہوتی ہیں اور ایسا ہی ہوا! پروفیسر خالد محمود خالد نے ہماری خوب ترجمانی کی۔
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم یہ آقاؐ کہ بات ابتک بنی ہوئی ہے
٭… باب علم ، حضرت علی ؑ نے تمام غزوات میں اہم نقوش قائم کئے پہلے معرکہ غزوۂ بدر میں شجاعت کے جوہر دکھائے ،اور حضور پاک ؐکی حفاظت کرتے ہوئے ستر زخم کھائے ۔غزوۂ خندق میں عمروبن عبدہ پہلوان کی للکار کے جواب میں مقابلے کیلئے نکلے تو حضور کریمؐ نے فرمایا:’’کل اسلام کل کفر کے مقابلے پر جارہا ہے‘‘۔ امام علی نے اسے ایک وارسے جہنم رسید کردیا۔معاہدہ حدیبیہ تحریر کرتے وقت جب مشرکین نے محمد رسول اللہؐ کی بجائے محمد بن عبداللہ لکھنے کی ضدکی تو محمد رسول اللہ ؐکا لفظ کاٹنا بے ادبی خیال کیا ۔فرامین نبویؐ تحریر کرنے کا شرف بھی امام علی کو حاصل تھا ۔خیبر کا قلعہ قموس جب باوجود کو شش کے فتح نہ ہوسکا تو حضور اکرم ؐ نے فرمایا :۔’’کل میں عَلَم اس کو دوں گا جو اللہ اور رسولؐ کو عزیز رکھتا ہے اور خدا اور رسول کا پیارابھی ہے‘‘۔ امام علی نے قلعہ قموس فتح کرکے یہودیوں کی سازشوں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا ۔آپؓجملہ دینی علوم کے دریا تھے ۔قرآن کریم کے صرف ونحو کے قواعد حضرت علی ؓ نے مدون کئے ۔وہ اس فن کے مؤجد تھے ۔احکام مسائل شرعیہ کا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا ،جسے فلسفیانہ طریقہ ٔ تحقیق کہتے ہیں ۔حضور پاکؐ نے خود کو علم کا شہر اور حضرعلی ؓ کو دروازہ قرار دیا ۔آپؓ ایک بلند پایہ فقیہ ،خطیب ،مفتی ،مجاہداور مجتہد تھے علم وفضل کے آفتاب درخشاں ،فقہ کے ماہتاب تاباں تھے ۔آپؓ اسداللہ تھے ۔فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ میں سب سے بڑے اور زیادہ بلندی پر نصب بُت کو توڑنے کی ذمہ داری حضورپاک ؐ نے آپ ؓ کو سونپی سب سے زیادہ قوت فیصلہ کے مالک حضرت علی ؓ تھے ۔داخلی مسائل کے باوجودآپ ؓ کے عہد خلافت میں سیستان اور کابل میں فتوحات ہوئیںآپ ؓ کی عمر مبارک 63سال اور عہد خلافت 4سال اور 9ماہ تھا ۔