چکوال کے اوصاف کروں کیسے بیاں
اے دوست مرے پاس وہ الفاظ کہاں
چکوال کے لوگوں میں ہے اک ایسی بات
ہوتی ہے جو ارباب نظر پر ہی عیاں
اس خاکے کے ذرات میں اک روشنی ہے
پیکر ہے شجاعت کا ہراک پیروجواں
تاریخ فراموش نہیں کرسکتی
دھنی کے جوانوں کے دلیری کے نشاں
اس وادی دلکش کے نشیب اور فراز
ہیں اہل نظر کے لیے سرمایہ جاں
پنجاب کا یہ ضلع ہے آپ اپنی مثال
اس طرح کے نظارے بھلا اور کہاں
چکوال‘ تلہ گنگ‘ چوآسیدن شاہ
لگتا ہے کہ ہر قریہ ہے اک طرفہ جہاں
ہے بھون کے تالاب کنارے اب بھی
اک گم شدہ لمحے کا کوئی عکس رواں
چلے پہ چڑھائی تھی کسی گبھرو نے
اک حسن کی دیوی کے لیے اپنی کماں
دیکھے جو کوئی جاکے اگر کلرکہار
وہ دیکھے گا تاریخ کے قدموں کے نشاں
کیا خوب ہے نظارہ رقص طاؤس
کیا بھاتا ہے آنکھوں کو یہ خوش رنگ سماں
ہے کتنی ہی صدیوں کا امیں راج کٹاس
آثار قدیمہ کا پراسرار جہاں
بوچھال کے نزدیک سرراہ کہیں
خوابیدہ ہے انگلینڈ کا دل پھینک جواں
لنگاہ ہے وہ قریہ حسن وخوبی
ہیں جس کے جہاں گرد بھی معروف جہاں
جس خاک کی آغوش میں ہیں شاہ مراد
وہ خاک بنی سرمہ صاحب نظراں
چمکے ہیں یہاں شعروادب کے کئی چاند
ہوتا ہی رہا ہے گزر ماہ وشاں
چکوال کی تاریخ قلم بند ہوئی
جب ڈپٹی کمشنر تھے لیاقت علی خاں
نیازی ہیں میانوالی کے لیکن ان کو
اس وادی دلکش سے ہے اک ربطہ نہاں
وہ مرد قلند ہیں سراپا درویش
اللہ رکھے ان کو ہمیشہ شاداں
(جمیل یوسف)