ظلم، ظالم اور عدل و احسان 

پاکستان میں جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے، خواہ اس کی نوعیت کچھ ہی کیوں نہ ہو، اس ظلم کو مٹانا اور اس کی جگہ نظام عدل و احسان قائم کرنا، یہ ہے قرآنی تعلیم کا منشا اور مدینہ کی ریاست۔ موجودہ حکومت تحریک انصاف کی ہے۔ حکمران ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ کیا وہ نظام عدل و احسان اورمدینہ کی ریاست قائم کر پائے؟ 
اس کا جواب پاکستان کے عوام کو دینا ہو گا۔ 
ظلم کیا ہے؟ کسی چیز کو اس کے مقام پر نہ رکھنا، خواہ کمی زیادتی کر کے یا اسے اس کے صحیح وقت اور اصلی جگہ سے ہٹا کر۔ کسی چیز کا توازن بگاڑ دینا۔ ظلم کے معنی حدود شکنی اور تجاوز کے بھی ہیں۔ ظلمت کے معنی ہیں اندھیرا، تاریکی۔ مطلب کہ روشنی کا معدوم ہونا۔ قرآن کریم میں ظالمین کا لفظ بکثرت آیا ہے جس کے معنی ہیں قانون شکنی، حدود فراموشی، دوسروںکی ملکیت پر ناجائز تصرف کرنے والے۔ حقوق انسانیت میں کمی کرنے والے۔ دوسروں کے واجبات میں کمی کرنے والے۔ دوسروں کے واجبات کو پورا پورا ادا نہ کرنے والے، دوسروں کی محنت کو اپنے مصرف میں لے آنے والے، دوسروں پر زیادتی کرنے والے اور اس طرح ا پنی ذات کی نشوونما میں کمی کرنے والے۔ سورہ بقرہ میں ہے (جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ ظالم ہیں) ظالمین کی یہ بڑی جامع تعریف ہے۔ اس لیے کہ انسانیت کے حقوق کا تعین قوانین خداوندی ہی کی رو سے ہو سکتا ہے اور جو شخص ان قوانین کو توڑتا ہے وہ حقوق انسانیت میں غصب کرتا ہے۔ لہذٰا حدود اللہ کو توڑنے والا ظالم ہے کیوں کہ وہ حقوق انسانیت میں کمی کرتا ہے۔ 
چوںکہ حقوق انسانیت میں کمی کر دینے سے معاشرہ کا توازن بگڑ جاتا ہے اور خود انسانی ذات کا توازن بھی قائم نہیں رہتا، اس لیے قرآن کریم میں ظلم کو سُوء کا مترادف قرار دیا ہے اور اس کے مقابلہ میں حُسنا کا لفظ آیا ہے۔ حسن، تناسب و توازن کی بہترین شکل کا نام ہے۔ قرآن میں نور کے مقابل میں ظلمات کا لفظ آیا ہے جس کے معنی تاریکیاں ہیں۔ نور کی جمع کہیں نہیں آئی لیکن ظلمات بطور جمع آیا ہے۔ حقیقت ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ افسانے مختلف ہوتے ہیں۔ مستبد حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ کمزور رعایا پر ظلم کر رہی ہے۔ اس طرح بالادست قومیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ زیر دست، کمزور اقوام پر ظلم کرتی ہیں لیکن یہ ظلم خود ان کی اپنی تباہی کا موجب ہوتا ہے۔ 
دانشور اور رائٹر رانا احتشام ربانی اپنی کتاب ’’شعور کی سچائی‘‘ میں لکھتے ہیںکہ ’’ظالم‘‘ دنیا میں سب انسانوں کا ناپسندیدہ لفظ ہے کیوں کہ ظالم شخص بے بس مجبور انسانوں پر مختلف انداز سے ظلم کرتا ہے۔ خوراک سے محروم رکھ کر، انصاف سے محروم رکھ کر، ذہنی و جسمانی اذیت دے کر، تنخواہ سے محروم رکھ کر، بیگار کے کام لے کر وغیرہ وغیرہ۔ ظالم اگر سربراہ ہو تو سرپر رکھا تاج غلاظت سے بھرا۔ ظالم کا ساتھ دینے والے بھی اسی طرح کے گندے کردار کے مالک۔ باشعور معاشرے میں ظالم کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور شدید نفرت کی جاتی ہے۔ رانا احتشام ربانی کی تازہ ترین تحریر ملاحظہ کریں ’’مہنگائی کے زمانے میں غصے اور طیش کو قابو میں رکھیں۔ لڑائی جھگڑے کی صورت میں خرچہ بہت ہوتا ہے۔ لڑائی جھگڑا ۔ ہسپتال، تھانہ، کچہری۔ خرچہ ہی خرچہ۔ دولت اور وقت کا ضیاع۔ بچت کی قدر کیجئے۔ امن سے بچت ہے‘‘ ۔ آخر میں کراچی میں مقیم شاعر دوست ظفر رباب کی نئی غزل پیش ہے:۔؎ 
زمیں پیروں تلے رہ رہ کے دھڑکے 
فلک بھی قہر بن کے سر پہ کڑکے 
کھنڈر ہونے سے پہلے گھر پرانا 
بہت رویا مکینوں سے بچھڑ کے 
یہ لاغر جسم، پچکے زرد چہرے 
نکھرنے ہی نہیں پاتے بگڑ کے 
نہ پھیلا نور اپنے جھونپڑوں میں 
یہاں بیٹھے ہیں اندھیرے سکڑ کے 
کسانوں اور مزدوروں کے آنگن 
کبھی آباد نہ ہونگے اجڑ کے 
عبث ہے چمنیوں میں خون جلنا 
اگر مزدور کا چولھا نہ بھڑ کے 
ربابؔ اتنی بھی نہ کر آبیاری 
غموں کا پیڑ ہیں مضبوط جڑ کے 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن