پاکستان کی بنیاد دینِ اسلام پر ہے‘ نظریۂ پاکستان یا دو قومی نظریہ دراصل ہمارے اسلامی تشخص کا ہی دوسرا نام ہے۔ اسلام اس مملکت خداداد کی غایت بنی ہے۔ تحریک پاکستان کا مقصد درحقیقت اسلامیان ہند کو اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور نبیٔ کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں نے محض اس لیے اپنے آبائی گھر بار چھوڑ کر نوآزاد مملکت کی طرف ہجرت کی تھی کہ وہ وہاں دینِ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہوں گے۔ نہ ان کی مساجد کے سامنے عین نماز کے وقت ڈھول پیٹے جائیں گے‘ نہ انکے بچوں کو مشرکانہ کلمات پر مبنی بندے ماترم پڑھنے پرمجبور کیا جائیگا۔ انہی امیدوں اور ارمانوں کو اپنے من میں بسائے کم و بیش دس لاکھ مسلمان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو پاکستان کی طرف قدم بڑھاتے تہہ تیغ کر دیا۔ ان شہدائے کرام کی ارواح پر کیا گزرتی ہو گی۔ جب پاکستان میں دین بیزار فاشسٹ لبرل عناصر نصاب تعلیم میں سے اسلامی تعلیمات اور شخصیات کی حیات و خدمات کو منہا کرنے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ یہاں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی آئین ساز اسمبلی میں کی جانیوالی -11 اگست 1947ء کی تقریر کے ایک اقتباس کی بنیاد پر بانیٔ پاکستان کو سیکولر ذہن رکھنے والا انسان ثابت کرنے کی مذموم جسارت کی جاتی ہے۔ پاکستانی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انکی تہذیب و ثقافت کے تانے بانے مکہ و مدینہ سے نہیں بلکہ موہنجوداڑو اور اشوکا کی سلطنت سے ملتے ہیں۔ محمد بن قاسم کی جگہ راجہ داہر کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ان سب باتوں پر مستزاد نصاب تعلیم سے اسلامی تعلیمات کے اخراج کی سازشیں ہیں۔
یہ سطور قلمبند کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2014ء میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک فیصلہ صادر کیا تھا جس پر عمل درآمد کے لیے محکمۂ پولیس کے ایک سابق افسر شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ شعیب سڈل نے 30 مارچ 2021ء کو یکساں قومی نصاب تعلیم کے حوالے سے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں تجویز دی کہ سنگل نیشنل کریکولم (SNC) کے مختلف مضامین یعنی اردو‘ انگریزی اور جنرل نالج میں شامل تمام اسلامی مواد اور مسلمانوں کے حوالہ جات کو نکال کر اسلامیات یا اسلامک سٹڈیز کی کتابوں میں سمو دیا جائے کیونکہ یہ مضامین خصوصی طور پر مسلمان طلبہ و طالبات کیلئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلامی مواد کا اردو اور انگریزی کی کتب میں ہونا مذہبی ہدایات دیے جانے کے مترادف ہے اور کسی بھی غیر مسلم کو یہ مواد پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور آئین پاکستان کا آرٹیکل (1) 22 اس امر کے بارے میں بڑا واضح ہے۔ کمیشن نے پہلی تا پانچویں جماعت تک کے نصاب میں اردو‘ انگریزی اور جنرل نالج کے مضامین میں اسلام‘ اسلام کی نامور شخصیات اور دیگر ہر قسم کے اسلامی مواد کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے نکالنے کی سفارش کرتے ہوئے اسے صرف اور صرف اسلامیات کی کتاب میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان کی نظریاتی اساس پر کاری وار کے مترادف ان تجاویز سے وزارت تعلیم نے عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اساتذۂ کرام کو پہلے ہی یہ ہدایات دی جا چکی ہیں کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو اسلامی نصاب پڑھنے پر مجبور نہ کیا جائے اور نہ ہی غیر مسلم طلبہ کا امتحان اسلامی مواد سے لیا جائے۔ 31 مارچ 2021ء کو سپریم کورٹ نے وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ یکساں نصاب تعلیم کے معاملہ کو طول دیا جا رہا ہے‘ اس ضمن میں ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ۔ لگتا ہے کہ وزارت تعلیم سے یکساں نصاب کا کام ساری زندگی نہ ہو گا۔ نصاب کے معاملہ پر کچھ ہو سکتا ہے تو ٹھیک ورنہ سیکرٹری تعلیم کو فارغ کر دیں گے‘ لہٰذا وہ ایک ماہ میں نصاب کا مسئلہ حل کریں۔
قارئین کرام! اب دیکھنا یہ ہے کہ وزارت تعلیم نصاب تعلیم میں کیا تبدیلیاں متعارف کراتی ہے۔ خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان کی نسل نو کو سیکولر لبرل نظریات کا حامل بنانے کی کوششیں کامیاب نہ ہو جائیں۔ یہ خدشہ اس لیے بے بنیاد نہیں ہے کہ چند سال قبل ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم Peace and Education نے پاکستان میں نصاب تعلیم کی تیاری کے سلسلے میں اپنی تیار کردہ تجاویز پر عمل درآمد پر اصرار کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ نصاب تعلیم میں صرف دینِ اسلام کو بطور واحد دینِ حق کے پیش کرنا ختم کیا جائے اور اقلیتوں کی نامور شخصیات کا ذکر بھی مناسب حد تک شامل نصاب کیا جائے۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں اسی این جی او کی سفارشات کی بنیاد پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرکاری سکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب کے مواد میں تبدیلیاں کی جا چکی ہیں۔ اس تناظر میں حوصلہ افزاء امر یہ ہے کہ اتحاد تنظیمات مدارس نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں شعیب سڈل کمیشن رپورٹ کو تسلیم نہ کرنے‘ اسے آبادی کے دو سے تین فیصد طبقے کیلئے اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور اپنی انفرادی رائے مسلط کرنے کے مترادف اور جمہوری اقدار اور اکثریت کے مذہبی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی علماء کرام کی نشاندہی پر سیکرٹری سکولز ایجوکیشن کو شعیب سڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد روکنے کی ہدایت کر دی ہے۔سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے بھی کمیشن کی سفارشات کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نصاب تعلیم سے اسلامی تعلیمات کو نکالنے کا اقدام وطن عزیز کی نظریاتی اساس کے خلاف ہو گا جس سے ملک میں انتشار اور فساد پیدا ہو گا۔
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے اب نہیں بلکہ عرصۂ دراز سے یکساں نصاب تعلیم اور پاکستان کے عوام کیلئے یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور اگر اسلام پسند محب وطن افراد اور تنظیموں نے اس سازش کا نوٹس نہ لیا تو اندرون و بیرون ملک سے یہ مطالبہ بھی سامنے آنے میں زیادہ وقت نہ لگے گا کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے حقیقی اسباب و مقاصد کو بھی قومی نصاب تعلیم سے خارج کر دیا جائے کیونکہ ان کی روح دو قومی نظریہ ہے جس کی اساس دین اسلام پر ہے اور اس کے باعث اقلیتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اگر اس سازش کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو پہلے سے سیاسی انتشار میں مبتلا پاکستان میں ایک نیا فکری انتشار پیدا ہو جائے گا جو قومی یکجہتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
نصاب تعلیم سے اسلامی مواد کے اخراج کی سازش
Apr 28, 2021