پنجاب اسمبلی کی طرف سے اکثریت رائے سے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب کے بعد گزشتہ دس روز سے انکے حلف اٹھانے کا معاملہ معلق چلا آ رہا ہے۔ اس وقت ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کا انتظامی کنٹرول کسی کے پاس نہیں ہے۔ گورنر پنجاب جنہیں آئین اور قانون کی روسے وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانا تھا وہ اس منصبی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے صدرِ مملکت کو تحریری طور پر آگاہ کر رکھا ہے کہ چونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا معاملہ متنازعہ ہے اس لیے وہ ان کا حلف لینے کو غیر آئینی عمل تصور کرتے ہیں۔ متاثرہ فریق نومنتخب وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اس ضمن میں عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی نے صدرِ مملکت کو ہدایت کی کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے حلف کے لیے گورنر پنجاب کی معذوری کی صورت میں کسی دوسرے شخص کو نامزد کریں اور اس مقصد کے لیے 24 گھنٹے کی مہلت بھی دی گئی لیکن عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہو سکا چنانچہ عدالتِ عالیہ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ روز نئے احکامات جاری کر دئیے ہیں جن میں گورنر پنجاب کو جمعرات کی رات 12 بجے تک نومنتخب وزیر اعلیٰ سے خود یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعے حلف لینے کا پابند کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اپنے ریمارکس میں باور کرایا صدر پاکستان اور گورنر پنجاب اپنے حلف کی پاسداری اور آئین کی عملداری کے پابند ہیںجس کا لازمی تقاضا ہے کہ اسمبلی کے منتخب کردہ وزیراعلیٰ سے حلف لیا جائے۔ اس کیلئے انکے فرائض سے روگردانی یا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ آئین کا احترام سب پر واجب ہے یہ ملک آئین شکنی کا کسی طور متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا آئینی عہدے پر فائز شخصیات کو بہرحال آئین کی پاسداری کرنی چاہیے اور اب وزیراعلیٰ پنجاب کے حلف میں کوئی امرمانع نہیں ہونا چاہیے۔