جامعہ کراچی میں چینی باشندوں پر خودکش حملے کی گھنائونی واردات

جامعہ کراچی میں ایک خاتون خودکش بمبار نے گزشتہ روز چینی باشندوں کی وین کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجہ میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور اساتذہ سمیت تین چینی باشندے اور وین کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہو گیا۔ دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ اسکی آواز دور تک سنائی دی گئی‘ قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور نعشوں کے لوتھڑے قریبی عمارت کی بالائی منزل تک جا پہنچے جبکہ خودکش حملے کا نشانہ بننے والی وین کو آگ لگ گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ گروپ نے اس خودکش دھماکہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور کہا ہے کہ خاتون فدائی شاران بلوچ نے یہ دھماکہ کیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکش حملہ جامعہ کراچی کے اندر واقع کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے پاس عین اس وقت ہوا جب چینی باشندوں کی وین اس عمارت کے قریب پہنچی۔ وین اسی انسٹی ٹیوٹ کی تھی۔ اس اندوہناک سانحہ کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔ دھماکے میں زخمی ہونیوالے افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے تین زخمیوں کی حالت نازک بیان کی جارہی ہے۔ 
پولیس ذرائع کے مطابق وین میں سات سے آٹھ افراد موجود تھے تاہم وین سے باہر کتنے افراد زخمی ہوئے‘ اس حوالے سے ابھی تک تصدیق نہیں ہوسکی۔ رینجرز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دھماکے میں رینجرز کے چار اہلکار زخمی ہوئے ہیں جو متذکرہ وین کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ انچارج کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ راجہ عمر خطاب نے اس دھماکہ کے خودکش ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ باقاعدہ ریکی کے بعد گاڑی کو ٹارگٹ کیا گیا۔ انکے بقول دھماکے میں استعمال شدہ بارودی مواد مقامی نہیں لگ رہا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اعلان کیا کہ چینی باشندوں کی جان لینے والوں کو پھانسی پر لٹکائیں گے۔ پاکستان اور چین کے آہنی تعلقات پر حملہ ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز اسلام آباد میں چین کے ناظم الامور پینگ چنگ زو سے ملاقات بھی کی اور چین کے صدر شی جن پنگ کیلئے خصوصی تعزیتی پیغام تحریر کیا۔ 
جامعہ کراچی کے اندر ہونیوالے اس خودکش حملے کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اسکی ذمہ داری ایک بلوچ آزادی پسند گروپ نے قبول کی ہے اور مبینہ طور پر جس خاتون نے چینی وین کو ٹارگٹ کرکے خود کو دھماکے سے اڑایا ہے‘ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شادی شدہ خاتون تھی جس کے دو معصوم بچے ہیں جبکہ اس خاتون کا پورا خاندان بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور مختلف سرکاری مناصب پر فائز ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا تو ہرگز قرین قیاس نہیں ہوگا کہ یہ خاتون کسی بھولپن یا پیسے کے لالچ میں کسی دہشت گرد تنظیم یا گروپ کی آلۂ کار بنی ہوگی جبکہ اس خودکش حملے کیلئے بطور خاص چینی باشندوں کو ٹارگٹ کرنا بھی معنی خیز ہے۔ یقیناً ہمارے تحقیقاتی ادارے اس سانحہ کے پس پردہ محرکات کا ٹھوس بنیادوں پر کھوج لگائیں گے مگر ملک میں پیدا ہونیوالی دہشت گردی کی نئی لہر ہمارے نئے حکمرانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ضرور ہے جس میں ہماری سکیورٹی فورسز سمیت مخصوص مکاتب زندگی کے لوگوں کو چن چن کر ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ خیبر پی کے اور بلوچستان کے علاقوں میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زیادہ تر وارداتیں دہشت گردوں کیخلاف اپریشنز میں سکیورٹی اہلکاروں کے قافلوں کیخلاف ہوئی ہیں۔ گزشتہ روز بھی جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے ایک لانس نائیک اور سپاہی شہید ہوا جبکہ یہ حملہ بھی سکیورٹی فورسز کے کلیئرنس اپریشن کے دوران ہوا جو ملک کے دفاع و سلامتی کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز کی بیش بہا قربانیوں کا عکاس ہے اور یقینی طور پر دہشت گردی کی ایسی وارداتوں میں ہمارے دیرینہ مکار دشمن بھارت کی ایجنسی ’’را‘‘ کا ہاتھ ہوتا ہے جس کے بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن کی جانب سے ثبوت بھی پیش کئے جاچکے ہیں۔ ’’را‘‘ نے بلوچستان میں بھی کلبھوشن کے ذریعے ہی دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلایا جس میں افغان باشندوں کے علاوہ مقامی باشندوں کو بھی دہشت گردی کیلئے اپنا آلۂ کار بنایا جاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں جامعہ کراچی میں ہونیوالے خودکش حملہ میں بھی بھارت کا ملوث ہونا بعیدازقیاس نہیں کیونکہ اسکی ذمہ داری بلوچستان کی آزادی پسند اس تنظیم نے قبول کی ہے جس کی بھارت اعلانیہ فنڈنگ اور سرپرستی کررہا ہے۔ تاہم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون جو بطور ٹیچر خدمات سرانجام دے رہی تھی‘ متذکرہ دہشت گرد تنظیم کے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے مقاصد کیلئے استعمال ہوئی یا اس حملے کیلئے اسکی اپنی ذات کا کوئی عمل دخل ہے‘ اسکی تہہ تک پہنچنا انتہائی ضروری ہے۔ 
بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے زیادہ تر لاپتہ افراد کے حوالے سے پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اور یہ معاملہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے چل رہا ہے جس پر اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری نے اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس بھی لیا تھا اور متعلقہ اداروں کی سخت بازپرس بھی کی تھی۔ مشرف آمریت سے شروع ہونیوالا لاپتہ افراد کا مسئلہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں بھی درپیش رہا ہے مگر اسکے حل کیلئے زبانی جمع خرچ کے سوا آج تک کوئی قابل عمل پیش رفت ہوتی نظر نہیں آئی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بھی گزشتہ ہفتے بطور خاص لاپتہ افراد کے معاملہ میں سکیورٹی اداروں سے بات کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اگر اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت ہوتی نظر آرہی ہوتی تو شاید جامعہ کراچی کے خودکش حملے کی نوبت نہ آتی جبکہ اس حملے سے یقینی طور پر پاکستان چین گہری دوستی کو بھی دھچکا لگے گا کیونکہ اس سے پہلے سی پیک پر کام کرنیوالے چینی انجینئروں اور دوسرے سٹاف کو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے۔ اب دوبارہ چینی باشندوں پر حملے سے بادی النظر میں یہی تاثر پیدا ہوگا کہ ہم اپنے برادر پڑوسی اور دوست ملک کے باشندوں کے تحفظ میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اس کیلئے ان سکیورٹی لیپس پر بہرحال قابو پانا ضروری ہے جس کے باعث دہشت گردوں کو اپنے اہداف تک پہنچنے اور دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ 
ہمیں سب سے پہلے ان اسباب و محرکات کا سدباب کرنا ہوگا جو دہشت گردی کی ایسی وارداتوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران بلوچستان کی محرومیوں کے ازالہ اور لاپتہ افراد کے معاملہ کا حل نکالنے کے عزم اور اعلان کے باوجود ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کرسکے جن سے بلوچستان کے عوام بالخصوص علیحدگی پسند تنظیموں سے وابستہ بلوچ نوجوان مطمئن ہو سکتے ہوں۔ اس وقت ملک کی سلامتی کو اندرونی اور بیرونی طور پر جو چیلنجز درپیش ہیں‘ اسکے تناظر میں ہم مخصوص ایجنڈا کے تحت ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتوں کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔ موجودہ حکومت کو جو ایک قومی حکومت ہے اور جس میں بلوچستان کی محرومیوں کیخلاف آواز اٹھانے والوں کی بھی معقول نمائندگی ہے، بلوچستان میں پیدا شدہ اضطراب و خلفشار کے ازالہ کے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانا ہونگے اور دہشت گردی کے ’’روٹ کاز‘‘ کا قلع قمع کرنا ہوگابصورت دیگر اقوام عالم میں ہمارا تشخص خراب کرنے کا ہمارے دشمنوں کو موقع ملتا ہی رہے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن