ڈاکٹر حسن صہیب مرادکی علم وعمل سے مزین زندگی

اس علمی خاندان سے میرا تعلق تین نسلوں پر محیط ہے، خرم جاہ مراد علم و عمل اور دانش کا ایک ایسا پیکر تھا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ہر رمضان المبارک کے آغاز پر ان کی طرف سے روزوں کے فضائل اور مسائل پر لکھے گئے کتابچوں کا ایک پیکٹ موصول ہوا کرتا تھا۔میں ان دنوں نوائے وقت میں میگزین ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہاتھا، خرم جاہ مراد کے دو درجن کتابچے موصول ہوتے تو ہر کوئی ان پر ٹوٹ پڑتاتھا۔ دراصل ان کتابچوں میں زبان سادہ مگر پر تاثیر ہوتی تھی۔اگر کسی رمضان المبارک کے موقع پر یہ پیکٹ موصول نہ ہوتا تو میں انکے ادارے منشوارت میںفون کرکے منگوا لیا کرتاتھا۔انکے فرزند ڈاکٹر حسن صہیب مراد عجز ونیاز کی ایک تصویر تھے،طبیعت میں انتہائی سادگی،بولتے تو سوچ سوچ کر الفاظ ان کے منہ سے ادا ہوتے۔میں نے شاذ ہی انہیں خوش گپیاں کرتے دیکھا، متانت ان کی طبیعت کا ایک خاصا تھی ،وہ ایک خاموش اور موثر کارکن تھے۔ انھوں نے بڑی پھرتی سے یو ایم ٹی جیسا وقیع ادارہ کھڑا کر دکھایا۔میں ایک مرتبہ بوسٹن گیا تھا ۔علم وتحقیق کی خوشبوئیںرچی بسی ہوئی تھیں۔ یقین جانیے میں یو ایم ٹی جاتاہوںتو مجھے اس کی دیواروں سے علم کی خوشبوئیں آتی ہیں، ان کے بیٹے ابراہیم حسن سے ایک اتفاقیہ ملاقات ہوئی،یوں لگا کہ ان کے والد اور داد ایک قالب میں ڈھل گئے ہیں۔اس ملاقات میں انھوں نے مجھے اپنے والد گرامی کی لکھی ہوئی ایک کتاب ہدیہ کی۔ڈاکٹر حسن صہیب مراد مرحوم کی کتاب علم ،عمل اور زندگی دراصل انکی زندگی کے عملی تجربات کو نچوڑ ہے،یہ کتاب آئی ایل ایم ٹرسٹ کے زیر انتظام جناب سلیم منصور خالد نے مرتب کی ہے۔کتاب کے دیباچے  میںمرتب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر حسن صہیب مراد نہ تو شاعر تھے نہ فلسفی،وہ کوئی معروف نثر نگار تھے اور نہ ہی کوئی شعلہ بیان مقرر۔بظاہر وہ میدان کے نہیں، کتابوں کے جھرمٹ میں مطالعہ کرنیوالے آدمی دکھائی دیتے تھے۔ مگر اسکے باوجودڈاکٹر حسن صہیب مراد کے ہاں شاعرانہ تخیل کی بلند پروازی تھی،فلسفیانہ فہم اور منطق کے پھول تھے۔ اردو،انگریزی نثر نگاری کا اعلیٰ رنگ اور طرز تکلم میں دلربائی اور اسلوب بیان میں فکرو خیال کی کہکشاں تھی۔کتابوں کی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے باوجود وہ عملی میدان کی حرکیات سے کمال درجہ واقف تھے،اور الحمدللہ اس میدان میں کردار ادا کرنے کی جوہری صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ ڈاکٹر حسن صہیب مراد سے چھیالیس سالہ رفاقت کے دوران مرتب نے قدم قدم پر یہ مشاہدہ کیا کہ انکی زندگی میں ایمان،محبت ،ہمدردی، خلوص،علم دوستی،مستقبل بینی اور مستقبل سازی کا جوہر موجود تھا۔ علم ،عمل اور زندگی کے اوراق میں مذکورہ بالا سبھی رنگ موجود ہیں:فکری مندی اور رہنمائی کے زاویے موج در موج اور سوچ کی گرہیں کھولتے ہاتھ۔طویل خطبوں اور لیکچروں کا عطر،ایک ایک دو ودو صفحوں پر معطراستقبال کرتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی کوشش تھی کہ ایک قاری چلتے پھرتے اپنی، اجتماعی، انفرادی اور عملی زندگی میں فکر وخیال کی غذا لیتا رہے۔ اس سلسلۂ  تحریر کا آغاز1995میں ماہ نامہ ترجمان القرآن کے صفحات پر ہوا،جس کا محرک ان کے والد گرامی جناب خرم مراد تھے لیکن اس سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے مسلسل اصرار کافریضہ ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے چچا پروفیسر مسلم سجاد انجام دیتے رہے۔صراط مستقیم کی تلاش میں ڈاکٹر حسن صہیب لکھتے ہیں کہ ہم ہر نماز میں کھڑے ہوکر صراط مستقیم پر چلنے کی دعا کرتے ہیں لیکن سیدھے راستے پر چلنے کیلئے اپنے کاموں اور زندگی کو سیدھا رکھنا نا گزیر ہے۔سوچ کا متوازن اورنیت کا سیدھا رہنا بھی لازم ہے،سیدھا راستہ صرف ایک ہوتا ہے،یہ راستہ متعین منزل کی طرف جاتا ہے،راستے کے سیدھے ہونے کا تعین الہٰی اور عقلی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔سیدھے راستے پر چلنے کیلئے نظروں کا منزل پر جمے رہنا لازم ہے،راستے کا تعین نقطہ آغاز پر ہی ضروری ہے،اگر آغاز میں ہی غلطی ہوجائے تو بعد میں واپسی مشکل ہوتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ اپنی اولاد،اپنے وابستگان،اپنے زیر نگیں افراد اور اپنی رعیت کی اصلاح مطلوب ہے تو پہلے اصلاح کیجئے،اصلاح کا موثر ترین ذریعہ واعظ اور نصیحت نہیں بلکہ اپنا نمونہ پیش کرنا ہے۔وقت گزرنے کا انسانوں کو احساس تو ہوتا ہے مگر وقت کے برباد ہونے کا احساس بہت کم لوگوں کو ہوتا ہیغافل شخص بے حسی کے نشے میں مدہوش ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔لیکن آپ گزرے ہوئے وقت پر پریشان نہ ہوں،مستقبل کے بارے میں تنگی اور تلخی محسوس نہ کریں،تاہم وقت کے بارے میں سخت حساس ہوجائیے،معیاری کلچر اپنانے اور بنانے کی کوشش کریں،اپنا ہی نہیں دوسروں کا بھی وقت بچایئے۔ ڈاکٹر حسن صہیب لکھتے ہیںکام وقت کے مطابق کیجئے،بنیادی عناصر کا وقت سے پہلے تعین کیجئے،کام سے لطف اٹھایئے،اور کام کومصیبت نہ سمجھئے۔کام شروع کیجئے،کام کا پھیلائوکم ہوتا جائیگا اوریہ خود بخود آسان لگے گا۔کام کیساتھ قوت کار کی حفاظت کیجئے،صحت، آرام اور طعام کا خیال رکھیے،سادگی اور وقار کو اپنی پہچان بنائیے،پریشان رہنے کی عادت ترک کر دیجئے،اپنی کامیابیوںاور خوشیوں کو یاد کیجئے،اپنے اہل خانہ کو اپنا معاون بنائیے،جذبات پر قابو پایئے،غصے سے گریز کیجئے،اپنی گفتگو اور لفظوں کے چنائو پر غور کیجئے،مطالعہ میں تازگی اور مشاہدے میں گہرائی لایئے،اپنی یاد داشت بہتر بنائیے۔تعمیری اور مثبت تبدیلی کیلئے ہمیشہ سر گرم عمل رہیے۔ایک دوسرے باب میں ڈاکٹر صاحب وعدے کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ اپنے وعدوں کو سنجیدگی سے لیجئے، وعدے کو ضرور پورا کیجئے،وعدہ پورا کرنے والے کی ایک شخصیت ہوتی ہے ،یعنی ذمہ دار شخصیت اور وعدہ پورا نہ کرنے والے کی شخصیت کو بیمار شخصیت کہلاتی ہے۔ہمیں آئینہ بننے اور آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے، ہم روز آئینہ دیکھتے ہیں،اسی لیے اس میں ہم کو اپنی تصویر نظر آتی ہے،ہم اپنی تصویر دیکھ کر اپنے بارے میں صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں،آئینے کی بڑی خصوصیات ہیں ذرا آئینے میں ہی دیکھئے۔آئینہ آپ کی تصویر بلا کم و کاست بتائے گا،کمی بیشی سے اجتناب کرے گا،آپ کے سامنے آتے ہی بتائے گا،لمحے بھر کی دیر نہیں لگائے گا،آپ سے کوئی اجرت طلب نہیں کرے گا،آپ کا مخلص رہے گا۔
زندگی میں علم وعمل کے حوالے سے ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے اقوال زریں ہمیشہ پلے باندھنیکے لائق ہیں۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہم عجیب لوگ ہیں،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا مطلب مادی ترقی اور دولت کی ریل پیل ہے،حالانکہ دولت بڑھتی،گھٹتی اور اندھیرے میں ڈوبتی چھائوں ہے، اگر دولت ہی زندگی ہوتی تو قیصر و دارا،تیمور و بابرکی اولاد کبھی فنا کے گھاٹ نہ اترتی۔

ای پیپر دی نیشن