اداروں کے خلاف گھٹیا بیانئے

دھینگا مشتی ، مار کٹائی ، دنیا میں پاکستان کے جمہوری اداوںکی جگ ہنسائی کے بعد تاحال عوام گوں مگوں کا شکار ہیں کہ انکا مستقبل کیاہوگا ، ا س بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتیںکسی تعارف کی محتاج نہیں، انکی آمد سے یقینا نوکر شاہی میں بیٹھے کام چوروں میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے وزیر اعظم اپنے محنتی ہونے کے تعارف کے ساتھ نوکر شاہی کے لئے وجہ خوف نہ بنیں چونکہ کام تو نوکر شاہی نے کرنا ہوتا ہے جہاںکام میں رکاوٹ ہو وہاں بالکل فوری تادیبی کاروائی ہو ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت ایک انتہائی وسیع البنیاد عمران مخالف اتحاد کی حکومت ہے۔ یہ اتحاد وزیر اعظم کی سابقہ شہرت اور لقب ’’خادم اعلی ‘‘ سے بہت زیادہ مشکل ہے چونکہ سابقہ حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے بھانت بھانت کے لوگ جمع ہوئے وزیراعظم اور ان کے اتحادیوں کی باتوں سے معلوم پڑتا ہے کہ ان کا ارادہ اس اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک اقتدار پہ براجمان رہنے کا ہے تین ماہ میں انتخابات ایک خواب سے کم نہیں، تحریک انصاف نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پاکستانیوں کے درمیان جو زہر سے بجھی اور صبر سے بہت دور ایک نئے سنگین ماحول کو جنم دیا ہے جس میں آئین ، قانون سے بہت دور نعرے اور معاشرے میں اعلی اداروںکے خلاف نفرت پھیلانے کا ٹھیکہ لیا جو گلی محلے ، سڑکوںتک آچکا ہے جو کسی بھی ملک اور قوم کیلئے زبان ، قومیت، صوبائی دشمنی سے بھی بد تر ہے ۔تحریک انصاف کے کچھ کرتا دھرتا اور تن تنہا اتحادی شیخ رشید خانہ جنگی کا عندیہ دے رہ ہیں، شیخ رشید کی کئی سالوںپر محیط سابقہ ’’بھڑکوں ‘‘ نے کبھی کامیابی کا منہ نہیںدیکھا بہ حیثیت وزیر اپنی تمام تر جسمانی طاقت مجتمع کرکے وہ کہتے تھے کہ عدم اعتمام کامیاب نہیںہوگی ، مگر ہوگئی اسی طرح کی کئی اور بھڑکیں بھی ریکارڈ پر ہیں ملک میں انشااللہ خانہ جنگی کی بھڑک بھی کامیاب نہیں ہوگی ۔ ہاں ! مگر تحریک انصاف اعلی اداروںکو بے قدر کرنے، ان پر گھناونا الزامات لگانے ، عوام کو بھی اپنے سوشل میڈیا اور تقاریر کے ذریعے ان اعلی اداروںکی بے قدری کرنے کا سبق دے رہی ہے جیسے ’’ملک کیلئے جن ا داروںکی عزت لازم ہے وہ سوالیہ نشان بنتے جارہے ہیں ، میرے حلقوںکی سوچ کوئی اور ہے( واضح رہے کہ شیخ رشید کے حلقے میں اکثیریت مسلح افواج کے اور انکے خاندان کی ہے ۔) اور میری سوچ عوامی ہے ، وغیرہ وغیرہ یہ وہ انداز ہے جسکے متعلق کہا جاتا کہ کسی پر تنقید براہ راست نہیں ، مگر لحاف میںلپیٹ کر کی جائے ، یہ اتنی خطرناک باتیں ہین کہ عوام اب اتنے بے وقوف نہیں اب ’’لحاف ‘‘ میں لپٹی کوئی تنقید نہیں ہوتی عوام تحت اللفظ پڑھ لیتے ہیں ۔تحریک انصاف کے پاس دوران اقتدار بھی کچھ ایسا بیانیہ نہیں تھا مثلا کارکردگی ، اور نہ اب ہے کہ وہ کم از کم اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا تذکرہ کرسکیں۔ پہلے بھی ڈاکو اور کرپشن کی گردان تھی اور اب بھی ایسا ہی ہے ، تحریک انصاف کے خلاف بیرونی طاقت یا امریکہ کی سازش کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے ، سابقہ وزیر اطلاعات کے مطابق ’’اگر اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ ہوتی تو ہماری حکومت کبھی ختم نہ ہوتی ، یہ ہی تو المیہ ہے ہمارے سیاست دانوںکا ہمیشہ ان لوگوںکی بیساکھی کا سہارہ لیا انتقال اقتدار جو ابھی تک مکمل نہیںہوا ہے اس کے دوران ہمارے ملک میں آئین کو اس بری طرح تار تار کیا گیا ہے کہ اسکا اصل چہرہ مسخ ہوگیا ہے ، اس کھیل میں صدر پاکستان بھی شامل ہوگئے ہیں ، نہ جانے گزشہ حکومت نے کیوں سوچ لیا ہے یا تھا کہ اب وہ ہمیشہ ہی تا قیامت حکومت میں رہے گے پہلے قومی اسمبلی مین تماشہ لگایا اور پنجاب اسمبلی میںتماشہ تاحال جاری ہے ، ان اقدامات سے آئین اور ملک تماشہ بن گیا ہے جسکی گونج بیرون دنیا تک ہے ۔ دنیا بھر میںپاکستانی بھی سیاسی اختلافات کی بناء دست و گریبان ہیں، امریکی سازش قرار پارلیمانی جمہوریت کے کتابی تقاضوں کو ذہن میں رکھیں تو عمران خان آخری لمحات تک خود کو وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رکھنے کے لئے ہر نوعیت کا حربہ استعمال کرتے نظر آئے۔ اس ضمن میں کئی ایسے حربے بھی استعمال ہوئے جو ہر اعتبار سے غیر آئینی تھے۔ہم مگر اندھی نفرت وعقید ت میں خوفناک حد تک تقسیم ہوئی قوم بن چکے ہیں۔’’تخت یا تختہ‘‘ والے ماحول میں حقائق معدوم ہوجاتے ہیں۔ ویسے حکومت کا ایک ادارہ پاکستان ٹیلی ویثرن جسے واقعی ہی آزادی اظہار کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے اور دیگر نجی چینلز کے مقابلے میں اسے بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے ، مگرپاکستان میں یہ تماشا ہمیشہ سے ہی چلتا رہا ہے کہ حکومتیں پی ٹی وی کو اپنی مرضی اور صرف اپنے مفاد کیلئے چلانے کی نیت سے اپنے جاسوس نما صحافی نمائندے پاکستان ٹیلی وژن نیوز میں تعینات کرتی ہیں۔ سابقہ دور حکومت میںمیڈیا ہائوسز میں بڑے پیمانے پر بے روزگار ی ہوئی ، ادارے بند ہوئے ۔ یہی حال پی ٹی وی نیوز کا بھی کیا۔ جہاں سابق وزیراطلاعات کے بھرتی شدہ افراد آج بھی بھاری معاوضوں پر تعینات ہیں اور مزے کر رہے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن