انسان خدا کی محبت کا امین

 تبلیغ …چوہدری محمد جمشید خان
cjkhan1003@gmail.com 
محبت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ  حُب ہے۔ حُب کے لغوی معنی بیج دانہ  اورتخم کے ہیں۔ حُب دل کے اندر واقع قلب کے اس مقام کو کہتے ہیںجس پر سارے دل کا دارومدار ہوتا ہے چونکہ محبت کے لفظ کا منبع و ماخذ حُب ہے۔ اس لئے اس کا نام بھی اس کے اپنے محل کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جس طرح نباتات کی اصل بیج ہوتی ہے اسی طرح انسانی زندگی کی اصل بھی محبت ہوتی ہے۔ زندگی کے جس جسم میں محبت کی روح نہ ہو وہ مردہ اور بے جان سمجھی جاتی ہے ایسے میں انسانی اور حیوانی زندگی میں کوئی واضح فرق باقی نہیں رہتا۔ شاعرِمشرق نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ عشق کی موجودگی میں بے دینی بھی مسلمانی ہے اور اس کے بغیر مسلمانی بھی بے دینی ہے کیونکہ کلام ربانی میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو براہ راست حکم دیا ہے کہ وہ اس سے محبت کریں ۔صرف محبت ہی نہیں بلکہ شدت سے محبت کریں (البقرہ 165) چنانچہ اس حکم کی رو سے مومنوں کو اپنے رب سے شدت سے محبت کرنی فرض ِ عین سمجھا جاتا ہے اور جو مومن اس فرض ِعین کا تارک ہو اُسکا ایمان کیسے سلامت رہ سکتا ہے کیونکہ قلب میں ایمان ہو تو وہ مومن ہے اور جسم پر اسلام ہو تو وہ مسلمان ہے ان دونوں کی عدم موجودگی میں وہ کیا ہے اس کا فیصلہ تو ماہرین فقہہ اور عاشقین ِصادقین ہی کر سکیں گے ہم تو کچھ نہیں کہہ سکتے۔بعض محققین کی رائے کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے محبت کو پیدا کرناچاہا تو اُس نے ارواحوں کو اپنی ذات سے الگ کر کے عالم ِارواح میں بھیج دیا۔ جب روحیں اپنی اصل اور ذات حق سے جدا ہوئیں تو قدرتی طور پر ان میں فراق کی کیفیت پیدا ہو گئی اور ان میں اپنی اصل سے ملنے کی ایک زوردار آرزو اورتڑپ پیدا ہوئی۔ اس آرزو اور تڑپ کو اصطلاح میں محبت کہتے ہیں۔سالکوں اور عاشقوں کے نزدیک توساری کائنات اسی آرزو میں مبتلا ہے بظاہر جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے وہ سب اسی جذبے ہی کا کرشمہ ہے ۔وہ کہتے ہیںاور سچ کہتے ہیں کہ عشق ومحبت زندگی کا قانون اور دین اسلام کی بنیاد ہے اگر محبت نہ ہوتی تو کائنات نہ ہوتی اور نہ ہی دنیا کی کوئی چیز معرضِ وجود میں ہوتی۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ عاشقوں کی نظر میں گداگروں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ایاز کے تبسم کے سامنے محمود کے دل کی کوئی قیمت نہیں۔ جب دنیاوی عاشقوںکے سامنے بادشاہوں کی کوئی حیثیت نہیں تو معشوقِ حقیقی کی بارگاہ میں بادشاہوں کی کیا قدر ومنزلت ہوگی اس سے آپ خود ہی اندازہ لگالیں۔
 اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ محبت ایک غیر مادی اور غیر مرئی شے کا نام ہے۔ جو نہ کوئی جسم رکھتی ہے نہ ہی دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے جس چیز کو نہ چشم بصارت دیکھ سکتی ہو نہ کیمرے کی آنکھ ملاحظہ کر نے کی اہلیت رکھتی ہو اور نہ ہی دماغ کا آئینہ اس کو منعکس کر نے کی قابلیت رکھتا ہو تو ایسے میں قلم بیچارہ اُس کی لفظی تصویر کیسے کھینچ سکتا ہے۔ قدرتی اور فطری قانون کے مطابق ہم پھولوں کو تو دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی خوشبو کو نہیں دیکھ سکتے۔ لفظوں کو پڑھ سکتے ہیں لیکن ان کے معنی کو نہیں دیکھ سکتے۔ انسانوں اور حیوانوں کو دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی روحوں کو ملاحظہ نہیں کر سکتے ۔لہذا اُن کو تحریر میں لانے کا سوال ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ حق اور سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی حال کا نقشہ قال سے نہیں کھینچا جاسکتا۔ روز مرہ کے مشاہدات اور تجربات سے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ محبت ہر غم کی دوا ہے ہر مرض کی شفا ہے یہ کانٹوں کو گلاب اور زندان کو گلستاں بنا سکتی ہے  نار کو  نور  دیو  کو  حور  بنا سکتی ہے  یہ حبشی کو عربوں کا سردار اور غلام کو ان کا سپہ سالار بنا سکتی ہے۔چاند کو انگلی کے اشارے سے دو ٹکڑے کر سکتی ہے مغرب میں ڈوبے ہوئے سورج کو واپس لوٹا سکتی ہے یہ قلت کو کثرت پر غالب کر سکتی ہے اور زمانے کے بہتے ہوئے دھارے کا رخ موڑ سکتی ہے۔ یہ مٹی کو سونا اور سونے کو مٹی بنا سکتی ہے۔ یہ ناممکنات کو کرشمات، کرامات اور معجزات کے ذریعے عملی جامہ پہنا سکتی ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خود کیا ہے اور کیسی ہے؟ کیوں کہ اس کا تعلق حال سے ہے قال سے نہیں ہے اور حال کو قال کے سانچے میں ڈھالا نہیں جا سکتا فارسی والے تو کہتے ہیں کہ مشکلِ نیست کہ آسان نہ شود  مر د باید کہ ہراساں نہ شود۔ مرد کو چاہیے کہ ہمت نہ ہارے ورنہ کوئی مشکل ایسی نہیں ہے جو کہ آسان نہ ہو سکتی ہو۔ بانیء پاکستان نے یہ کہہ کر اس بحث کو سرے سے ہی لپیٹ دیا ہے کہ ناممکن احمقوں کی لغات کا لفظ ہے انسانی جدوجہد اور اسلامی تگ ودو کی فرہنگ میں ناممکن کا کوئی لفظ موجود ہی نہیں ہے تاہم کوشش کرنے میں کوئی ہرج اور قباحت نہیں خواہ وہ کتنی ہی ادھوری اور نامکمل ہی کیوں نہ ہو۔میں ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں اور میری عقلِ ناقص اور فہم ِنارسا کیمطابق وہ مقناطیسی قوّت اور کشش جو کسی منفرد شخص یا شے کو کسی غیر معمولی وصف اور خوبی کی بنا پر شدت سے اپنی طرف کھینچے کو محبت کہتے ہیں باالفاظِ دیگر وہ قلبی حدت اور روحانی تڑپ جو کسی کُل میں اپنی جزو کیلیے اور کسی جزو میں اپنی کل کے لیے پائی جائے اسے محبت کہتے ہیںاسی طرح ہر طالب و مطلوب کے درمیان جو باہمی کشش پائی جاتی ہے وہ بھی اسی ضمن اور زمرے میں آتی ہے۔ بہرحال محبت کا یہ خصوصی اعزاز صرف انسان ہی کو عطا ہوا ہے کسی اور مخلوق کو نہیں بخشا گیا۔ سچی ،سُچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ انسان کے سر پر اشرف المخلوقات کا جوتاج سجایا گیا ہے وہ محبت ہی کا مرہون منت ہے۔ ورنہ اطاعت، حمدوثنا اور پرستش کیلیے کروبیاں کی کوئی کمی نہ تھی۔ محبت کا ذکر کرتے ہوئے رب تعالیٰ نے کلام ربانی میں ارشاد فرمایا ہے (سورئہ الاحزاب۷۲)  کہ میں نے اپنی محبت کو امانت کے غلاف میں لپیٹ کر سب سے پہلے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوںکے سامنے رکھا تو اُن سب نے اس انمول نعمت کو امانت کے طور پر قبول کرنے سے معذرت پیش کر دی کیونکہ اس امانت کے امین کے لیے جہا ں بیش بہا انعام و اکرام کی نوید سنائی گئی تھی وہاں  اس کی حفاظت کے قانون کی خلاف ورزی پر عذاب کا حوصلہ شکن پیغام بھی شامل تھا۔ علاوہ ازیں ان کو اس امانت کی قبولیت اور معذرت کے انتخاب کا اختیار بھی سونپا گیا تھا چناچہ انہوں نے اس کے ان دونوں پہلوؤں کا بہ نظرِ غور جائزہ لے کر معذرت کی راہ اختیار کرنے میں اپنی بہتری اور بھلائی سمجھی لیکن جب انسان کی باری آئی تو اس کو اس پیشکش میں فراقِ محبوب میں تڑپنے والی جزو کو اپنی کل کے قُرب کا شرف اور دیدار کا سنہری موقع نظر آیا۔ اسلئے اُس نے اِس کو کسی غوروخوض اور سوچے سمجھے بغیر فوراً قبول کر لیا۔ اس کی اِس محبوبانہ  اور عاشقانہ ادا کو دیکھ کر رب ِتعالیٰ کو بہت خوشی ہوئی کہ انسان نے اس کی محبت کی خاطر کسی عذاب کو کوئی اہمیت نہ دی اور بغیر کسی لیت و لعل کے اسے قبول کر لیا۔ اس مسرت کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے اس دلیر اور نڈر انسان کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ تو ظلوماً  جہولاہے یعنی بڑا بھولا اور ناداں ہے۔ ادھر انسان نے بھی نہایت ہی عاجزانہ انداز میں اپنی گزارش پیش کر دی 
بندگی سے ہمیں تو مطلب ہے ہم ثواب و عذاب کیا جانیں 
    کس میں کتنا ثواب ملتا ہے عشق والے حساب کیا جانیں
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ محبت اللہ تعالیٰ کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ محبوب مخلوق ہے خود اللہ تعالیٰ کا حدیث قدسی میں ارشاد گرامی ہے کہ میں حسن و جمال اور اوصاف و کمالات کا چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں میرا کوئی مداح اور ثنا خواں ہو میرا کوئی جگنو اور پروانہ ہو میراکوئی دیوانہ اور فرزانہ ہو خو د میرا بھی کوئی محبوب اور حبیب ہو جس سے میں عشق کروں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مُقدس اور عظیم مقصد کے لیے اپنی ہی شان کے مطابق اپنا محبوب تخلیق فرمایا۔ اس کے وجودِ پاک میں اتنا نور بھرا جوسب فرشتوں کے مجموعی نور سے ہزار گنا زیادہ تھا جب آپ کی تخلیق مکمل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے جسم اطہر پر پڑے ہوئے پردوں کو آہستہ آہستہ سات دنوں میں اٹھایا۔ پھر اپنے محبوب کو سب کے سامنے رکھاتو آپ کے حسن و جمال کی تاب نہ لا کر ساری مخلوق اپنے حواس کھو بیٹھی اور مسلسل سات دن تک بے ہوش رہی۔ رب تعالیٰ کو ان کی یہ ادا بہت پسند آئی اور آپ نے اسی نسبت سے سات آسمان بنادیئے ۔ ساتواں آسمان سب سے آخری آسمان ہے جہاں سب سے زیادہ نور ہے اور یہ آسمان صرف اللہ اور اس کے حبیب کے لیے مختص ہے ہم سب سے زیریں آسمان کے نیچے رہتے ہیں جہاں نور سب سے کم ہے اور رحم سب سے زیادہ ہے ۔اس دوران محبوب کے وجود میں خدا کا جو نور تھا اس کے ایک چھوٹے سے ذرے نے بارگاہ رب ُالعزت میں عرض کی کہ اے بارالٰہ میں آپ کے محبوب کا ایک دن کے لیے دیدار کرنا چاہتا ہوں ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی درخواست قبول فرمالی اور اس کو سورج بنا کر اپنے محبوب کے دیدار کی توفیق عطا فرما دی ۔ اس کے بعد للہ کے محبوب کے نور کے ایک چھوٹے سے ذرے نے خالق ِکائنات کی بارگاہ عالیہ میں اپنی عاجزانہ التماس پیش کی کہ اے مولائے کریم میں آپ کا ایک رات کے لیے دیدار کرنا چاہتا ہوں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی التجا بھی قبول فرمالی اور اسے چاند بنا دیا۔ یوں سورج خدا کے نور کا حصہ ہے جسے اللہ کی ذات ِعالیہ نے اپنے محبوب کے دیدار کے لیے بنایا ہے جبکہ چاند خدا کے محبوب کے نور کا حصہ ہے جسے خدائے ذوالجلال کے دیدار کے لیے بنایا ہے آخر میں بارگاہِ خداوندی میں زمین حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی اے خداوند قدوس میں آپ کے محبوب کے پاؤں مبارک کو بوسہ دینا چاہتی ہوں۔ باری تعالیٰ نے اس کی بھی عرض قبول فرمالی اور جب اُس نے محبوب خدا کے پاؤں مبارک کو بوسہ دیا تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوئے اور فرمایا تیری اس محبت کے بدلے میں میرے محبوب کی امت قیامت تک تیری پیشانی کو چومتی رہے گی۔
 محبوب خدا کی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہے مگر میں یہاں صرف ایک واقعہ پیش کروں گا جس سے یہ ثابت ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کو آپ ؐسے کتنی محبت ہے۔؟سورہ رحمن کے نزول کا وقت ہے جبریل علیہ السلام تشریف لاتے ہیں۔ جونہی آپ نے ارشاد فرمایا الرحمن۔ یہ الفاظ سنتے ہیں آپ ؐ پر وجد طاری ہو گیا ۔ کیونکہ رحمن کی  ’ ر  ‘  سے  مراد  رب۔  ’ح  ‘ سے مراد  حمد۔ ’م‘ سے مراد  محمد ۔ ’الف‘ سے مراد  اللہ  اور  ’ن ‘سے مراد نور تھا یعنی پورے لفظ رحمن سے مراد یہ تھی اے محمد تیرا رب جس نے تجھے اپنے نورِخاص سے تخلیق فرمایا ہے وہ تیری تعریف کرتا ہے۔اس پر حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم پر وجداس لیے طاری ہوئی کہ سب تعریفیںتو  اللہ کیلئے ہیں اور تعریف کے قابل بھی وہی ہے میں تو آپ کی مخلوق ہوں اور آپ میرے خالق ہیں ۔ اے میرے خالق اور مالک آپ کا مجھ پر کتنا بڑا احسان ہے کہ آپ رب ،خالق اورسب تعریفوں کے قابل ہو کر بھی میری تعریف کرتے ہیں چنانچہ آپ پر وجدانی کیفیت دس دن اور دس رات تک جاری رہی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود اپنا پردہ اٹھایا اور اپنی تجلیات اپنے محبوب پر برسائیںتو آپ اصل حالت میں آئے ۔جب آپ اپنی اصل حالت میں آئے تو آپ ؐ نے اپنا سر تین ماہ تک شکرانے کے طور پر سجدے میں رکھا اور اس دوران آپ کی چشم مبارک ایک لمحے کے لیے بھی خشک نہ ہوئی اِدھر جبرائیل علیہ السلام نے یہ ماجرہ دیکھا تو حیراںہوگئے اور اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ یہ سب کیا ہے ؟کیسے اور کیوں ہوا ہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے دل میں خیال آیا کہ آپ اللہ تعالیٰ ہیں اور اگر آپ چاہیں تو براہ راست بھی اپنے محبوب سے گفتگو کر سکتے ہیں لیکن مجھے پیغام دے کر بھیجا ہے جب میں نے پیغام دیا تو محبوب تو پیغام کی روح تک کو سبجھ گیا مگر میں نہ سمجھ سکا کہ یہ معاملہ کیا ہے اور اللہ کے محبوب پر کیوں وجد طاری ہو گیا ہے یہ کیا راز ہے؟  اللہ تعالیٰ نے جواب دیا اے جبرائیل یہ تو ایسا راز ہے جو صرف میرے اورمیرے محبوب کے درمیان میں ہے آپ اپنا کام کریں اور صرف پیغام پہنچا ئیں۔کیا ہوا  او ر کیوں ہوا؟ اس پر توجہ نہ دیں اگر آپ نے یہ بات دوبارہ دل میں لائی تو میں آپ کو اپنے محبوب کے پا س وحی پہنچانے کا کام بھی واپس لے لوں گا اس پر جبرائیل علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے معافی مانگی ،توبہ کی اور آئندہ کے لئے خدا اور اس کے محبوب کے رازوں میں دخل نہ دینے کا وعدہ کیا ۔تین ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو اسی حالت میں آسمان پر اپنی ملاقات کے لیے بلایا اور فرمایا اے محمد میں تیرا خدا بھی ہوں،  تیرا عاشق بھی ہوں اور تیرا مرشد بھی ہوں تو میرا بندہ بھی ہے میرا محبوب بھی ہے اور میرا مریدبھی ہے۔ جواب میں حضور پُرنور ؐ نے عرض کی اے اللہ بے شک میرا رب بھی آپ ہیں میرے محبوب بھی آپ ہیں اور میرے مرشد بھی آپ ہیں ۔ میری روح بھی آج آپ کے سامنے آپ کی سچی اتباع کا وعدہ کرتی ہے اور اے خدا آپ بھی آج مجھے اپنی رضا میں راضی رکھنے کا وعدہ فرمائیں اس پر خدا نے اپنے محبوب سے وعدہ فرمایا کہ میں آپ کو اپنی رضا میں ایک ایک سانس تک زندہ رکھنے کا وعدہ کرتا ہوں۔                   
       رسولِ خدا پہ ہو ںلا کھوں سلام     
            اسی پر کیا میں نے ختمِ کلام

ای پیپر دی نیشن