عکس خیال …محمدحفیظ
mh_mughal13@hotmail.com
اللہ ہی جانے غلط کیاہے اور صحیح کیا …!!سننے میں آ رہا تھا کہ پاکستان یہ عید سعودی عرب کے ساتھ کرے گا جس کا ثبوت کسی من چلے نے آزاد کشمیر کے مولانا نثار السلام کی وڈیو لیک کر کے ہماری نیت کا پردہ چاک کر دیا تھا جس میں وہ 29رمضان کی صبح بیغام ریکارڈنگ کر رہے تھے کہ عید بروز ہفتہ کو ہو گی چناچہ ایسا ہی ہوا لیکن جونہی پاکستان میں جمعہ کے روزے کا اعلان کیا گیا اس کے فوری بعد سعودی عرب نے اپنی عید کا اعلان کیا جو عوامی توقعات کے مطابق نہیں تھا۔یہ غانبا پاکستانی سیاست کے مترادف طرح ثابت ہوا۔ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی دینی روایات بھی پاکستانی سیاست کی طرح دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہیں۔ جب عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ان کی امنگوں کے مطابق اگرعدالتیں رات کو فیصلہ صادر کر دیں تو کہتے ہیں یہ آئین اور قانون کی فتح ہے پارلیمنٹ بالا تر ہے عدالت کا کام صرف قانون کی تشریح کرنی ہے۔ لیکن اگر فیصلہ ایک بار آئین و قانون کے مطابق ہو جائے جو ان کی خواہشات کے بر عکس ہو تو وہاں یہ ہتھیارے یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم پر فیصلے پہلے بندوق کے زور پر مسلط کیاجاتا تھا اور اب ہتھوڑے کے زور پر جس کو ہم کبھی نہیں مان سکتے۔ آخر یہ کون لوگ ہیں کیا انکا پاکستان پر زیادہ حق ہے کیا یہی لوگ عوام پر تا قیامت مسلط رہیں گے کیا یہی پاکستانی عوام کی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں گے کیا یہی لوگ پاکستان اور اس کی عوام کے قسمت کے فیصلے کرنے ک اہل ہیں جو کسی نہ کی جرم میں نہ صرف مبتلا ہیں بلکہ ان پر مقدمات بھی انہی عدالتوں میں چل رہے ہیںاور قانون کو موم کی ناک بنا کر اپنے بچاو کے خاطر اس میں راتوں رات ضروری تبدیلی کر لیتے ہیں۔ کیا یہی لوگ اس ملک پر قبض رہیں گے جن کو آھین اور قانون کیا اللہ کا اور اس کے قانونکا بھی خوف نہیں ہے۔ لیکن جب سے عمران خان نے انکو ننگا کیا ہے یہ اس کے پیچھے یوں پڑے ہیں جیسے کوئی شخص کسی بیماری کے پیچھے پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ کپتان کے سائے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ان کی خواہش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسکو نا اہل قرار دلوا سکیں لیکن تقدیروں کے فیصلے اللہ کیہاتھ میں ہیں آخری فیصلہ اللہ ہی کا ہوتا ہے
مدعی لاکھ برا چاہے کچھ نہیں ہوتا
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اب پاکستانی سیاست جس رخ پر چلی گئی ہے اس میں صرف دو مہرے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی طرح اس کو دنیا میں بدنام کر کیرکھ دیا ہے ایک نے مذہب کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے اور دوسرے نے مصنوعی خوبصورتی کا جنکے ہاتھوں چند مفاد پرست اور خاندانی غلام کھلونہ بنے ہوئے ہیں لیکن عوام نے ان دونوں کی بیکار کوششوں کو بھی یکسر مسترد کر کے رکھ دیا ہے۔ ابھی میں رمضان کی آخری سحری کے لیے جب اٹھا تو دیکھا کہ مہربان جمعتہ الوداع کا پیغامات بھیج رہے ہیں اورکچھ عید مبارک جبکہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں ان کو کیا جواب دوں میں کیا کہوں کہ آج میری عید نہیں ہے آج میں بچوں کے اصرار پر رمضان کا تیسواں روزہ رکھ رہا ہوں۔میں ملک برطانیہ کے جس شہر میں رہتا ہوں وہاں کم و بیش 26 مساجد ہیں جن میں سے 20 سے زیادہ جمعہ کو عید منائی گئی اور باقی مساجد کی عید پاکستان کے ساتھ تھی۔ میں کل سے بچوں کے ساتھ اس بحث میں میں الجھا ہوا ہوں کہ دونوں مکاتبِ فکرمیں سے کون سہی ہے وہ جو مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت روزے سے ہوں گے یا وہ جو عید پڑھنے کے بعد نمازِ جمعہ پڑھ رہے ہوں گے۔ اس مزہبی تقسیم کا ذمہ دار کون ہے وہ لوگ جن کا پس منظر کسی طور سے بھی مزہب سے نہیں ہے لیکن برطانیہ آ کر اللہ نے انکو نہ جانے کیسے موقع فرایم کیا کہ وہ اسی کی مخلوق کو پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ایک کھلونہ بنا کے اپنی مرضی اور ضروریات کے مطابق کھیل رہے ہیں۔ شنید ہے ان میں سے زیادہ تر اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے کے در پے ہوتے ہیں جبکہ ان کو دین سے کوئی سرو کار نہیں۔ اپنے نام کو زندہ رکھنا زیادہ مقصود ہے بجائے دین کی سرفرازی کے۔ ان لوگوں نے پاکستانی سیاست کی طرح مذہب کو اللہ معاف کرے مزاق بنا کے رکھدیا ہم سے غیر مزہب لوگ پوچھتے ہیں تم سے صحیح کون ہیں جو پہلے عید کرتے یا یاجو بعد میں عید کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا جبکہوہ سبکچھ جانتے ہوتے ہیں کہ ہم مسلمان کیاکرتے ہیں ایسے لوگوں کا مقصود اگر ہیتو صرف پونڈ اکٹھے کرنا۔ چاہے جیسا بھی ہو۔ اللہ ہم کو معاف کرے۔ اگر کوئی میرا یہ مسلہ حل کردے کہ پاکستانی سیاست کے متضاد یہاں اکثریت والا طبقہ صحیح ہے یا وہ جو اقلیت میں ہیں جنھوں نے ہفتہ کو عید پڑھی… !!اللہ ہم کو معاف کرے آمین۔