غلط اعدادوشمار۔جبری گمشدگیاں اورلاپتہ افراد

Apr 28, 2023

اصغر علی شاد

امر اجالا:اصغر علی شاد
shad_asghar@yahoo.com 
اس امر میں شائد ہی کسی کو شبہ ہو کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک عالمی رجحان کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اس ضمن میں اعدادو شمار کی بابت انسانی حقوق کے دعویدار اکثر حلقے حقائق کو خطرناک تک حد توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں سچ اور جھوٹ میں تمیز لگ بھگ ختم ہو کر رہ گئی ہے اور یہ سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔
 اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیرجانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ دور حاضر میں سوشل میڈیا یقینا ایک بڑی اور موثر قوت کے طور پر ابھر چکا ہے مگر یہ امر بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں کہ بالمعموم سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنا ایک عالمی رجحان ہے۔اسی ضمن میں یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ بھارت اور چند دیگر قوتیں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں اور اس حوالے سے بلوچستان کے خود ساختہ نیشنَلِسٹ حلقوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ پاکستان کی بابت بہر صورت اپنے مکروہ ایجنڈے پرعمل پیرا ہیں اور اس ضمن میں تن من دھن سے مصروف عمل ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کے ہی چند طبقات بھی دانستہ طور پر وطن عزیز کے خلاف دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ایسے میں دعا ہی کی جانی چاہیے کہ ملک و ملت کے تمام حقیقی بہی خواہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی میں مثبت کردار ادا کریں گے
 اسی تناظر میں بلوچستان کے حوالے سے پراپیگنڈے کی نئی لہر گذشتہ چند مہینوں سے جاری ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی اسی سلسلے کو پھیلایا جا رہا ہے۔حالانکہ اس امر سے کون آگاہ نہیں تمام عالمی این جی اوز، اداروں اور ذرائع ابلاغ کو بلوچستان میں زمینی حقائق کی مانیٹرنگ اور رپورٹنگ کی کھلی چھوٹ ہے، لیکن اس سب کے باوجود جب یہ حلقے من چاہے نتائج حاصل نہیں کر پاتے تو بے بنیاد پراپیگنڈے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔
 اس ضمن میں کبھی جبری گمشدگیوں کی بات کی جاتی ہے تو کبھی لاپتہ افراد کی حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک عالمی مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس بات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کہ اس حوالے سے ایسے اعداد و شمار رپورٹ کئے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں، نہ ہی ان اعداد و شمار کی بنیاد میں کوئی ٹھوس تحقیق موجود ہوتی ہے۔ جب چند عالمی اداروں کے ذریعے ان اعداد و شمار کا راگ الاپا جاتا ہے تو وطن عزیز کے چند سادہ لو حلقے بھی اس پر یقین کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور خود مذمتی کا سلسلہ نئی شدت کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ 
البتہ یہ امر انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ بلوچستان کے عوام میں آگہی اور شعور کا احساس بیدار ہو رہا ہے اور وہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جذبہ حب الوطنی سے سرشار دشمن کی ان سازشوں کو مسلسل ناکام بنا رہے ہیں اور بلوچستان میں ہر سو ترقی اور خوشحالی کے راستے کھل رہے تھے مگر ان دنوں بلاشبہ ملک کو معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ’’سی پیک‘‘ کے خلاف جاری یہ بھارتی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس حوالے سے مبصرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ عالمی برادری اپنی انسانی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے تعمیری راہ اپنائے گی۔ 
 یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کی جری افواج نے بیتے چند برسوں میں دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے جو شبانہ روز قربانیاں دیں، ان کا معترف ہر ذی شعور ہے۔ اس بدیہی حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 7000 سے زائد افسر و جوان اپنی جانیں وطن کی حفاظت کے لئے نثار کر چکے ہیں اور ان کے ساتھ لگ بھگ 65000 سویلین پاکستانی شہری لقمہ اجل بنے۔ ایسے میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ پوری عالمی برادری اس امر کا اعتراف کرتی اور وطن عزیز کی قربانیوں کو خاطر خواہ ڈھنگ سے سراہا جاتا مگر عملاً اس کے الٹ ہو رہا ہے اور الٹا پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔  
 یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ چند عالمی قوتوں نے پاکستان کے حوالے سے اب بھی ’’ڈو مور‘‘ کی گردان کو اپنا دْم چھلا بنا رکھا ہے اور اٹھتے بیٹھتے اسی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ’’گلزار امام‘‘  ’’کلبھوشن یادو‘‘ جیسے عالمی دہشتگردوں کی گرفتاری کے بعد بھی اگر یہ طبقات اپنی پارسائی کے دعوے سے باز نہ آئیں تو اسے جنوبی ایشیائ￿  کی بد قسمتی کے علاوہ بھلا دوسرا نام کیا دیا جا سکتا ہے اور پھر جس طرح افغانستان میں ہونے والی دہشتگردی کو جس انداز میں پاکستان کے سر مْنڈھنے کی ناپاک جسارت کی جا رہی ہے اس کی تو مذمت کرنے کے لئے بھی الفاظ ڈھونڈ پانا خاصا دل گردے کا کام ہے۔ مگر آفرین ہے بھارتی حکمرانوں اورچند  بین الاقوامی طاقتوں پر کہ اپنی شرانگیزیوں پر بجائے نادم ہونے کے وہ اپنی چالبازیوں سے باز آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ دوسری جانب نہتے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے مگر عالمی برادری کا ضمیر ہے کہ جاگنے کے لئے تیار نہیں۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں عالمی برادری اپنی وقتی مصلحتوں کو خیرباد کہہ کر اپنا انسانی فریضہ نبھائے گی۔

مزیدخبریں