قاری محمد قاسم بلوچ
دینی مدارس میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو رہا ہے مدارس میں داخلے دس شوال سے شروع ہو جائیں گے مدارس کی رونقیں لوٹنے والی ہیں، دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے، ہدایت کے سرچشمے، دین کی پناہ گاہیں اور اشاعت دین کا بہت بڑا ذریعہ ہیں وہاں یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز بھی ہیں جو لاکھوں طلبہ وطالبات کو بلا معاوضہ تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ دین اسلام۔سیکھنے سیکھانے کے عمل کا آغاز پہلی وحی ’’اقراء باسم ربک الذی خلق‘‘ سے شروع ہوکرمکہ مکرمہ میں دار ارقم اور مدینہ منورہ میں مدرسہ صفہ تک جا پہنچا جہاں معلم انسانیتؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے دنیا پر اسلام کے پرچم کو لہرایا۔ یہ ایسے مدارس تھے جہاں پر آقا ؐ تزکیہ نفس اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں اور صحابہ کرامؓیہاں اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں یہ سلسلہ چلتے چلتے مختلف ادوار میں مختلف انداز میں قائم رہا۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کے قابض ہونے سے قبل انہی دینی مدارس میں تمام علوم و فنون پڑھائے جاتے تھے۔ انگریز سامراج کے قبضہ کے بعد مدارس کو ختم کردیاگیااور اس کا مقصد مسلمانوں کو دین سے دور کرنا اور ان کی تہذیب وتمدن کو ختم کرنا تھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو کھڑا کیا جنہوں نے از سر نو دینی مدارس قائم کر کے طاغوت کے سامنے بند باندھا انہی مدارس میں برصغیر پاک و ہند کی قدیم و عظیم دینی درس گاہ جامعہ فتحیہ (ذیلدار روڈ اچھرہ لاہور)بھی ہے جو 1875ئ میں قائم ہوئی۔جو کہ خانوادہ مخدومان پنجاب کے آخری چشم و چراغ شاہ عبدالرسول قصوری(جن کے خاندان سے حضرت بابا بلھے شاہ نے بھی فیض پایا) کی بشارت پر کہ ’’میں یہاں پر علم و عرفان کے چشمے پھوٹتے دیکھ رہا ہوں‘‘ ان کے مرید میاں امام الدین نے اپنے قابل فخر بیٹے حافظ فتح محمد کے نام پر جامعہ فتحیہ قائم کیا۔ حافظ فتح محمد بچپن میں چیچک کی وجہ سے ظاہری بینائی سے محروم ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے باطنی بصارت میں انہیں خوب نوازا تھا اور علم لدنی عطافرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان سے قرآن و حدیث کی خدمت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے تزکیہ نفس کا کام بھی لیا،بڑے بڑے اولیائ اللہ نے آپ سے روحانی فیض حاصل کیا۔ جامعہ فتحیہ میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ حکمت، خطاطی، جلد سازی کے ہنر بھی سکھائے جاتے رہے ہیں اس کے علاوہ باصلاحیت فضلائ کو کاروبار کے لیے قرض حسنہ بھی دیا جاتا تھا۔ جامعہ فتحیہ کی معاشرے میں بہتری کے حوالے سے شاندار خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا یہاں سے ہزاروں طلبہ تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو کر معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔جامعہ فتحیہ کی انتظامیہ کی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے خدمات کو بھی سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔اس مدرسہ کا معیار تھا کہ پاکستان بننے سے قبل جامعہ فتحیہ سے پڑھنے کے بعد دارالعلوم دیو بند جانے والے طلبہ کا داخلہ ٹیسٹ بھی نہیں لیا جاتا تھا اور وہی کے شیخ الادب مولانا اعزاز علی جامعہ فتحیہ کے طلبہ کا امتحان لینے تشریف لایا کرتے تھے،کیوں کہ جامعہ فتحیہ کو دارالعلوم دیو بند میں بھی ایک مقام حاصل تھا ۔ جامعہ کے مہتمم اول میاں قمر الدین، مہتمم دوم مولانا میاں محمد اسلم جان مجددی، مہتمم سوم میاں محمد سلمان نقشبدی مجددی، مہتمم چہارم حافظ میاں محمد نعمان(سابق ایم پی اے)چیئرمین لیسکو میاں محمد نعمان کے دور اہتمام اور میاں محمد عفان کی نظامت میں جامعہ فتحیہ کو جدید تقاضوں کے مطابق شاندار عمارت اوردینی و عصری تعلیم کے حسین امتزاج نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا جس کی وجہ سے ملک کے طول و عرض سے طلبہ تعلیم و تربیت کے لیے جامعہ کا رخ کرتے ہیں۔اس میں خاص بات یہ ہے کہ روز اول سے اب تک اہتمام کی سعادت یہی خاندان حاصل کئے ہوئے ہے۔ جامعہ فتحیہ کی لائبریری جو کہ انتہائی نادر و نایاب کتب پر مشتمل ہے اس میں دوسو پچاس سے زاید مخطوطات ہیں جن میں پچاس کے قریب قلمی قرآن پاک ہیں۔ قدیم ترین مخطوط تفسیر کشاف کا نسخہ ہے جوکہ سات سو چوبیس ہجری میں لکھا گیا جب کہ قدیم مطبوعات کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے جن میں سب سے قدیم سفر نامہ ابن بطوطہ کا نسخہ ہے جو کہ 1829میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اہتمام چھپا۔حیدر آباد دکن کی شائع شدہ کتب کے پہلے ایڈیشن بھی اس کتب خانہ کی زینت ہیں۔ جامعہ فتحیہ میں شعبہ حفظ القرآن، شعبہ تجوید و قرائ ت درس نظامی دورہ حدیث شریف تک اور ان سب طلبہ کے لیے عصری تعلیم میٹرک سے ایم اے تک ہے اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کورسز بھی کروائے جاتے ہیں حالیہ امتحانات میں جامعہ کا رزلٹ بہت اچھا رہا یہ سب اساتذہ کرام کی محنت اور انتظامیہ کے خلوص کا نتیجہ ہے۔ جامعہ کے صدرحافظ میاں محمد نعمان(سابق ایم پی اے) نے اپنے پیغام میں کہا کہ جامعہ فتحیہ 147 سال سے دینی خدمات میں پیش پیش ہے۔تعلیم، شعور و آگاہی بخشتی ہے جہالت کی تاریکیوں کا خاتمہ کرتی ہے اور ترقی کی شاہراوں کو روشن کرتی ہے جن پر چل کر قومیں باوقار زندگی گزارنے کے قابل ہوتی ہیں تربیت ان اخلاقی اقدار کو پروان چڑھاتی ہے جو انسانیت کی قدر، ایثار و قربانی، صبر و تحمل، جود و سخائ ، فراخ دلی، رواداری اور غیرت و حمیت جیسے اوصاف پیدا کرتی ہے۔جس قوم کے افراد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے وہی قوم اس قابل ہوتی ہے کہ اقوام عالم کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے سکے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ناصرف حصول علم کی ترغیب دی ہے بلکہ اعلٰی اخلاقی اقدار اپنانے کا بھی درس دیا ہے بحثیت مسلمان ہمیں تعلیم و تربیت کے اسلامی اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔